باقی ہر ایک کو نادان سمجھ بیٹھے ہیں
دوسرے شخص کے حصے کی ملائی کھا کر
خود کو اس دور کا دھنوان سمجھ بیٹھے ہیں
سارے ہی کاموں میں بس اپنی چلاتے جانا
خود کو اس شہر کا سلطان سمجھ بیٹھے ہیں
لفظ بننے کی بھی اوقات نہیں ہے جن کی
خود کو مضمون کا عنوان سمجھ بیٹھے ہیں
صرف تنقید نہیں کچھ تو سنادیں اپنا
شاعری کو بہت آسان سمجھ بیٹھے ہیں
درد سہ پاؤں شکیل اس لئے لب کھولے تھے
وہ اسے چہرے کی مسکان سمجھ بیٹھے ہیں
*(شکیل حنیف)*
بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
(فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن)
(مجموعہ کلام ۔ عکس دل )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں