نا چاہتے ہوئے بھی بدلنا پڑا مجھے
کچھ اس طرح سے اس نے محبت سے بات کی
انکار کرتے کرتے پگھلنا پڑا مجھے
باہر رواں ہے موت کا سیلاب , تھا پتہ
بچوں کی بھوک دیکھ , نکلنا پڑا مجھے
دل تو نہیں تھا پھر بھی نزاکت تھی وقت کی
موجِ بلا کے ساتھ اچھلنا پڑا مجھے
ہاں خون کھولتا تھا مگر پھر بھی چپ رہا
اپنے لہو کی آگ میں جلنا پڑا مجھے
جو دل میں تھا شکیل وہ لب پر بھی آگیا
رازِ وصالِ یار اگلنا پڑا مجھے
*(شکیل حنیف)*
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
(مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن)
( مجموعہ کلام ۔ عکس دل )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں