*چار منی افسانے*
(شکیل حنیف ۔ مالیگاؤں)
*زرخرید*
اینکر صاحب زور وشور سے شہری مسائل پر بول رہے تھے۔ سڑکوں کے گڑھے ٰ گندگی ٰ اتی کرمن ہر موضوع پر تیز و طرار طنز کے تیر برس رہے تھے۔ شہر کی بدحالی پر موصوف کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔ گرما گرم موضوع پر ویڈیو شوٹ ہورہا تھا۔ اچانک ایس ایم ایس ٹون بجا۔ اینکر صاحب نے شوٹ مکمل کیا اور ایس ایم ایس پڑھنے لگے۔ بینک کا میسج تھا کہ آپ کے اکاؤنٹ میں اتنا اتنا روپیہ جمع کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی وہاٹس ایپ پر نیتاجی کا مسکراتی اسمائلی کے ساتھ سلام بھی تھا۔ میسیج پڑھتے ہی اینکر صاحب نے نیتا جی کو ڈھیر ساری پھولوں
والی اسمائلی کے ساتھ تھینک یو لکھا۔ اپنے کیمرے سے شہری مسائل پر تازہ شوٹ کیا گیا ویڈیو ڈیلیٹ کیا اور نیتاجی کے جلسہ گاہ کی طرف تیزی سے روانہ ہوگئے۔➖➖➖➖➖➖➖➖
*وقت*
سمیر کمار تیز قدموں سے فلم ڈائریکٹر رمیش چوپڑا کی آفس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ چوپڑا کی اگلی فلم میں اس کو ہیرو کا رول مل ہی جائے گا کیونکہ اس کے والد کے دوست سدیپ کمار نے خود چوپڑا سے بات کرکے سمیر کو لینے کی سفارش کی تھی۔
سدیپ کمار اپنے وقت کے ایک انتہائی کامیاب اداکار تھے۔ ان کا اصل نام یونس خان تھا مگر وقت کے تقاضے کے تحت انہیں اپنا نام یونس خان سے بدل کر سدیپ کمار رکھنا پڑا تھا۔ یہ خیال آتے ہی سمیر ایک لمحے کیلئے ٹھٹکا مگر پھر یہ سوچ کر خوش ہوگیا کہ اس کو اپنے انکل کی طرح نام بدلنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیونکہ اس کا نام پہلے سے ہی سمیر کمار ہے۔ یہی سب سوچتے ہوئے وہ مسٹر چوپڑا کی آفس میں داخل ہوا۔ امید کے عین مطابق رمیش چوپڑا نے برائے نام اسکرین ٹیسٹ لینے کے بعد سمیر کو اپنی اگلی فلم کیلئے سائن کرلیا مگر ساتھ ہی ایک چھوٹی سی شرط رکھ دی کہ یوں تو آپ اپنے نام سے بھی فلمیں کرسکتے ہیں مگر چونکہ ان دنوں فلموں میں خان صاحبان کا بول بالا ہے۔ اس لئے وقت کے تقاضے کے تحت اگر آپ اپنا نام سمیر خان رکھ لیں تو بہتر ہوگا۔ چوپڑا صاحب کی یہ شرط سن کر سمیر کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اور وہ سوچنے لگا کہ وقت بھی کتنا عجیب ہوتا ہے۔ جانے کیا کیا رنگ دکھاتا ہے۔
➖➖➖➖➖➖➖➖
*چور*
ﭼﻮﺭ ﭼﻮﺭ ﭼﻮﺭ ً ﺳﯿﭩﮫ جی ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻓﻀﺎ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻧﺠﯽ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﻠﮯ ﮐﭽﯿﻠﮯ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﺩﺱ ﺑﺎﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﺑﻠﮯ ﭘﺘﻠﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﻮ ﺩﮬﺮ ﺩﺑﻮﭼﺎ۔ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﺭﭨﻮﻥ ﮐﯽ ﺩﻓﺘﯽ ﻟﮱ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺷﻮﺭ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺳﯿﭩﮫ ﺟﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﻭﺭ ﻟﻮﻡ ﮐﺎﺭﺧﺎﻧﮯ کے ﺑﺎﮨﺮ ﺍﭼﮭﯽ ﺧﺎﺻﯽ ﺑﮭﯿﮍ ﺍﮐﭩﮭﺎ ﮨﻮ گئی۔ ﺳﯿﭩﮫ ﺟﯽ ﻧﮯ ﻏﺼﮯ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﻃﻤﺎﻧﭽﮯ ﺟﮍ ﺩیے۔ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯿﮍ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮﮐﺮ ﺑﻮﻟﮯ۔
ً ً ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺍﺗﻨﯽ ﺳﯽ ﻋﻤﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ۔ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﯿﺎ ﺳﮑﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ؟ ً
ﺳﯿﭩﮫ ﺟﯽ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺷﻌﻠﮧ ﺑﺮﺳﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
ً ً ﺟﺎﻧﮯ ﺩﯾﺠﮯ ﻧﮧ ﺳﯿﭩﮫ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺳﯽ ﺩﻓﺘﯽ ﮨﯽ ﺗﻮ ہے۔ ً
ﺑﮭﯿﮍ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ
ً ً ﮐﯿﺎ ﮐﮩﺎ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺩﻓﺘﯽ۔ ﮐﯿﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﭼﻮﺭﯼ ﺁﺧﺮ ﭼﻮﺭﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﻻﮐﮫ ﮐﯽ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺍﯾﮏ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ً
ﺍﺑﮭﯽ ﺳﯿﭩﮫ ﺟﯽ ﮐﺎ ﺟﻤﻠﮧ ﭘﻮﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ یکایک وہ رک گئے اور ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺎﺭﺧﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﺎﮔﮯ۔ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﯾﺎﺩ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺟﻤﻠﮧ ﻧﮑﻼ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ
ًً ﭼﻮﺭﯼ ﺁﺧﺮ ﭼﻮﺭﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﭼﻮﺭﯼ ﺁﺧﺮ ﭼﻮﺭﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ً
ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﮮ ﻭﮦ ﮐﺎﺭﺧﺎنے ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮئے ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻭﺭ ﻣﯿﭩﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﺯﻭ ﺳﮯ ﺑﺠﻠﯽ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﮯ ﻟﮱ ﻟﮕﺎئے گئے ﺳﺎﺭﮮ ﻭﺍئر ﻧﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﮯ۔
➖➖➖➖➖➖➖➖
*فلم بین*
‛ٰٰ کیا جی آپ پھر موبائل لے کر بیٹھ گئے۔ ابھی صرف دو فلم ہی ڈاؤن لوڈ ہوئی ہے۔ آپ پورا جی بی کھا جاتے ہیں۔ آج کیا دیکھوں گی میں ؟ آپ بھی نا۔ نجمہ نے شکایتی انداز میں ناظم سے کہا۔
‛ارے کوئی بات نہیں ڈئیر۔ میں روز کی طرح میرے دوست کاشف سے لے لوں گا فلم۔ آخر وہ نکالتا بھی کس کے لئے ہے۔ وہ تو خود دینے کو تیار رہتا ہے‛ نجمہ کا غصہ بھانپ کر ناظم نے نرمی سے کہا۔
‛چلو وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ اتنی دیر سے موبائل میں کر کیا رہے ہیں ؟
نجمہ نے سوال داغ دیا۔
‛ارے کچھ نہیں جان۔ کچھ فلم بین بے ہودہ لڑکیاں تھیٹر میں فلم دیکھتے ہوئے دیکھی گئی ہیں۔ ان پر ایک مست پوسٹ آئی ہے۔ وہی سب گروپس میں فارورڈ کر رہا ہوں۔‛
➖➖➖➖➖➖➖➖
Shakeel Haneef,
Malegaon.
8087003917
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں