(ازقلم ڈاکٹر آصف سلیم)
٩_٩_٦٩ کا سیلاب مالیگاوں کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب تھا۔ پرانے لوگ کہتے ہیں کہ چالیس کی دہائی میں بھی ایسا ہی بڑا سیلاب آیا تھا خیر میں جو ذکر چھیڑ رہا ہوں ٦٩ کے سیلاب کی جو بہت زبردست تباہی اور نقصان دہ سیلاب تھا اس وقت میں میٹرک میں تھا حسب معمول ہماری کلاس اے ٹی ٹی ہائی اسکول جاری تھی رم جھم رم جھم بارش کا سلسلہ کئی دنوں سے چل رہا تھا ہم لوگ دونوں شفٹ میں اسکول جاتے تھے دوپہر کی شفٹ شروع تھی ایک دو پیریڈ بھی
ہو چکے تھے کہ گلاب نامی پیون نے آکر خبر دی کہ ندی میں پانی بڑھ رہا ہے اس لئے چھٹی دی جا رہی ہے ایسا ہے ہیڈ سر نے آرڈر دیا ہے اور سمکسیر کے بچے بغیر کہیں رکے اپنے گھروں کا رخ کریں ۔ایک بات اور بتا دوں گلاب پیون کا غیر متوقع کلاس میں آنا ہمارے لئے نیک شگون ثابت ہوا کرتا تھا کیونکہ اس میں اکثر چھٹی کے ہی اعلانات ہوتے تھے اندھا کیا چاہے ۔دو آنکھیں ۔بہر حال چھٹی ہوتے ہی گھر پہنچے تب تک سیلاب کی خبر پورے شہر میں پھیل چکی تھی لوگ اپنے بچوں کے ساتھ سیلاب دیکھنے کے لئے جانے لگے ہم لوگ بھی پہنچے جامعہ مسجد کے سامنے ایک باریک گلی میں کھڑے ہو کر دیکھا گڑ بازار والی اور مسجد کے سامنے والی روڈ پر پانی بہہ رہا تھا اوراس کے ساتھ ہی لوگوں کے گھریلو ساز و سامان بھی بہہ جا رہے تھے لوگوں کو اتنے بڑے سیلاب کی توقع نہیں تھی اس لئے موسم ندی کے کنارے آباد جھونپڑے سیلاب کی زد میں آ گئے ندی کا پانی بڑھتے بڑھتے جہاں ہم کھڑے ہوئے تھے وہاں تک پہنچ گیا تھا حالانکہ کہ وہ جگہ مسجد سے تقریباً تین چار سو فٹ کی دوری پر تھی اور کافی اونچی بھی تھی پھر بھی پانی ہم تک پہنچنے لگا تھا۔ بارش ہو رہی تھی اور شام کا وقت بھی ہو چلا تھا ہم لوگ واپس گھر کی طرف بڑھ گئے مغرب بعد پانی شہر میں داخل ہونے لگا تھا مسجدوں سے اذان کی آواز آنے لگی تھی لوگ دعاؤں میں مشغول ہو گئے تھے پاور نہ ہونے کی وجہ سے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا ایسے میں اور خوف بڑھ گیا تھا سپاٹی بازار میں ہماری دکان تھی کچھ سامان نکالنے کی غرض سے ہم لوگ رات آٹھ نو بجے کے قریب نہرو چوک پہنچے تو گھٹنوں کے اوپر پانی دیکھ کر واپس ہو گیے اب تو ہر طرف سے خوف محسوس ہونے لگا تھا کیونکہ میں اس وقت انجمن چوک میں رہتا تھا۔ بہت سے لوگ اپنے گھروں سے نکل کر محفوظ مقامات پر اپنے رشتے داروں کے یہاں یاآس پڑوس میں چلے گئے تھے در اصل موسم ندی میں بھی طغیانی تھی اور گرنا ندی بھی میں بھی زبردست طغیانی تھی جس سے بجاے موسم کا پانی گرنا میں ملنے کے واپس شہر میں گھس رہا تھا اوپر سے بارش کا پانی اور گٹریں ابل پڑیں تھیں۔ ایسے میں جہاں لوگوں کا زبردست مالی نقصان ہوا تھا وہیں میونسپلٹی کابھی زبردست نقصان پہنچا تھا کیونکہ میونسپلٹی کے بیلوں کی بہت ساری جوڑیاں بہہ گئیں جو کہ اعلی درجے کے کھلاری بیل تھے جو شہر سے کچرا اٹھانے کے لئے بیل گاڑیوں میں جوتے جاتے تھے جو خوبصورت اور بہت تندرست بھی تھے اور کچھ اپنے گلے میں بندھی رسی کی وجہ سے پانی میں ڈوب کر مر گئے ۔اسی طرح بڑی پانی کی ٹانکی جو گرنا ندی کے کنارے واقع تھی وہیں واٹر پمپ بھی لگا تھا جو پانی ندی سے کھینچ کر شہر کی ٹانکیوں تک آتا تھا کچھ لوگ جو اس پمپ پہ کام کر رہے تھے جو سیلاب کی وجہ سے وہیں پھنس کے رہ گئےجو اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے سیلاب کا زور بڑھتا دیکھ کر اپنے آپ کو رسیوں سے جکڑ کر بڑے انجن کے وہیل میں اپنے آپ کو باندھ لیا تھا تاکہ پانی کے زور سے بہہ نا جائیں مگر بس انکی کی زندگی اتنی ہی تھی اور وہ اس پانی میں بہہ گئے اس وقت بھی انکا کچھ آتا پتا نہیں ملا ان میں سے ایک میرے قریبی رشتے دار تھے پر مرضی مولا کے آگے سبھی مجبور ہیں۔رات میں کسی وقت سیلاب کا زور کچھ کم ہونا شروع ہوا بہت سی ہدایات مسجد کے میناروں سے بھی دی جا رہی تھی حالانکہ کے چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا مگر لوگوں سے معلومات حاصل ہو رہی تھی جو ایک سے دوسرے اور دوسرے کو تیسرے تک پہنچ رہی تھی کچھ دیر بعد سیلاب کا زور ٹوٹنے لگا تھا کیونکہ موتی باغ ناکے کے آگے آگرہ روڈ کا بہت بڑا حصہ ٹوٹ گیا تھا جس سے بہت بڑا گڑھا واقع ہو گیا تھا جو اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم ہوا جس نے شہر کے پانی کو اپنے اندر سمیٹ لیا اور دھیرے دھیرے سیلابی کیفیت کم ہو گئی پر رات آدھے سوے آدھے جاگے رات گزری اللہ اللہ کرکے رات عافیت اور خیریت سے گزری صبح اٹھتے ہی سیلاب کی تباہ کاریاں کی خبریں ملنے لگیں سیلاب کی کمی ہونے پر میں اپنے دوستوں کے ساتھ اپنی نظروں سے سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھنے کے لئے نکلا پورے شہر میں کیچڑ ہی کیچڑ جہاں پھسلن بھی بہت تھی سب سے پہلے قدوائی روڈ پہنچے شہیدوں کی یاد گار کے سامنے جے اے ٹی کے کارنر پر میونسپلٹی کا آکٹراے ناکہ تھا اسکی چھت کے ایک فٹ نیچے تک سیلابی پانی اپنا نشان چھوڑ گیا تھا اور بعد میں اس نشان پر ایچ ایف ایل لکھا گیا ہاییسٹ فلڈ لیول جو کافی برسوں تک نمایاں رہا۔اسکول بھی پہنچے میری کلاس ایچ بلڈنگ میں موجودہ کلرک آفس والی کلاس تھی جہاں کیچڑ ہی کیچڑ بھرا تھا اسکی صفائی میں لگ گئے اور بڑی محنت سے تھوڑا بہت صاف کرنے کے بعد بھاگ گئے اسکول کے پیچھے جو نالہ تھا اس سے لگ کر صادق سر نے بہترین باغیچہ بنایا تھا پوری طرح برباد ہو چکا تھا وہیں بہت ساری لکڑی کی بکھاریں تھیں جن کی لکڑیاں سیلاب کی نذر ہو گییں پھر آگے بڑھے سب سے اونچا سب سے پرانا اہلیہ بای ہولکر پل دیواریں اور دریں تو قائم تھیں پر اوپری حصہ پوری طرح برباد ہو چکا تھا جو کافی دنوں تک اپنی بپتا سناتے رہا پر اقتدار میں براجمان لوگوں کے کانوں پہ جوں نہ رینگی ۔پھر اور آگے بڑھے تو آگرہ روڈ کا وہ گڑھا دیکھا جس سے شہر کو راحت ملی ۔چندن پوری گیٹ پر راستے پر ادھر سے ادھر آنے جانے کے لئے رسیاں بندھی تھی یہ تو جب سیلاب بڑھنے لگا تبھی لوگوں کو محفوظ مقامات تک آنے جانے کے لئے لگا رکھی تھی جانی نقصان کے ساتھ مالی نقصان بھی زبردست ہوا تھا۔آج اکیاون باون سال ہو چکے اس نصف صدی میں بھی ویسا سیلاب نہیں آیا یہ اللہ کا کرم ہے بس آپ اس وقت کے سیلاب کا تصور کریں کتنا بھیانک اور تباہ کن سیلاب رہا ہوگا ۔گرنا ڈیم اس وقت بھی موجود تھا تھا شاید ڈیم کی ساری کھڑکیاں کھول دی گئیں ہوں اور مجھے یاد نہیں آرہا ہے کہ اس سیلاب سے اور علاقے یا گاؤں متاثر ہوئے کہ نہیں ہاں البتہ سنگمیشور جو دونوں ندیوں کے بیچ واقع ہے اللہ تعالیٰ نے اسے صاف بچا لیا ہاں ندی کے کنارے واقع علاقوں کو زبردست نقصان پہنچا تھا اکثر سیلاب کے بعد زبردست بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے پر شاید ایسا کچھ یہاں ہوا نہیں۔ایک اور خاص بات جس کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ اس وقت پلاسٹک کا بیجا استعمال نہیں تھا تو یہ حالات ہوے تھے آج پوری موسم ندی اور گٹریں پلاسٹک سے اٹی پڑیں ہیں تھوڑی سی بارش میں بڑی بڑی گٹریں ابل پڑتیں ہیں آج بھی سویرا ہے ہم اپنے ساتھ لوگوں کو اور ماحول کو خراب ہونے سے بچاییں ۔ڈاکٹر آصف سلیم یادوں کے جھروکوں سے۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں