اتوار، 5 ستمبر، 2021

شکیل حنیف کا یوم ولادت

 

*آج - 05؍ستمبر 1979*


*شہر مالیگاؤں سے تعلق رکھنے والے معلم اور معروف شاعر” شکیلؔ حنیف صاحب “ کا یومِ ولادت...*


(ازقلم ۔ اعجاز زیڈ ایچ)


نام *شکیل احمد* تخلص *شکیلؔ* ہے۔ والد کا نام *محمّد حنیف صابر* ۔ وہ *٥؍ستمبر ١٩٧٩ء* کو *شہر مالیگاؤں، مہاراشٹر ( بھارت)* میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکولوں سے حاصل کی۔ اسی طرح پونے یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کی ڈگری حاصل کی۔ ڈی ایڈ کرنے کے بعد اے۔ٹی۔ٹی ہائی اسکول ( مالیگاؤں) میں تقریباً بیس برس سے درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔

شعری مجموعہ *عکسِ دل* اور *حاجی حنیف صابر* کے نام سے سوانح حیات زیر ترتیب ہے۔

*معلم  ۔ چلو قربان کر ڈالیں اور چلو اسکول چلتے ہیں* جیسی نظمیں عالمی پیمانے پر مشہور ہوئیں ۔

*"ہمارا مالیگاؤں"* نام سے یو ۔ ٹیوب چینل اور بلاگ جاری ہے۔ آپ کو شہر کا اولین فیس بک اور وہاٹس ایپ گروپ بنام *"ہمارا مالیگاؤں"* کے بانی ہونے کا شرف حاصل ہے۔

شہری مسائل پر 1500 سے زائد مضامین اور کئی افسانے بھی لکھے ہیں۔


       🌹✨ *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*


*፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤*


🌹🎊 *معروف شاعر شکیلؔ حنیف صاحب کے یوم پیدائش پر منتخب اشعار بطور خراجِ تحسین...* 🎊🌹


*جس کی اردو زبان ہوتی ہے*

*اس کی باتوں میں جان ہوتی ہے*

---

نبھانا جس کو کہتے ہیں کچھ ہی لوگوں کو آتا ہے

بڑا آساں ہے کہہ دینا مجھے تم سے محبت ہے

---

لفظ بننے کی بھی اوقات نہیں ہے جن کی 

خود کو مضمون کا عنوان سمجھ بیٹھے ہیں

---

گرداں رہا زمین کے چکر میں روز و شب 

آخر ملی تو مجھ کو بھی دوگز زمیں ملی

---

سر پہ سایہ تھا تو کتنی شان سے جیتے تھے ہم

اب کہاں وہ شوخیاں سرمستیاں آزادیاں

---

بھول کر بھی یہ بھول مت کرنا

دل کا تحفہ قبول مت کرنا

---

فلک کے اس پار کوئی ادبی نشست شاید جمی ہوئی ہے

زمیں سے کتنے ادیب وشاعر بنا بتائے ہی جارہے ہیں

---

تمہاری یاد آنے کی نہیں مخصوص رت کوئی

کوئی موسم ہو ہر موسم میں تم تو یاد آتے ہو

---

نہ چھوڑا آخری سانسوں تلک محبوب کا دامن

کوئی دیکھے ذرا آکر محبت کس کو کہتے ہیں

---

اگر اللہ پر ایمان کامل ہو توکل ہو

مصیبت آئے پھر کیسی بھی گھبرانا نہیں آتا

---

کسی سے باتیں کسی سے ملنا کسی سے چاہت کسی پہ مرنا

نئے زمانے کی الفتوں میں سبھی ہے لیکن وفا نہیں ہے

---

بروز حشر ہم سب سے فرشتے بس یہ پوچھیں گے

تمنا گر ہو جنت کی بتا اچھے عمل پیارے

---

کون سی بستی ہے وہ کیسا ہے وہ ملک عدم

جس جگہ سے لوٹ کر واپس کوئی آتا نہیں

---

وصال کے ہیں ہزار رستے کہ دل بھی راضی دماغ راضی

جو پھر بھی ملنے نہ آسکو تو یقین مانو عجیب ہو تم

---

محبت کا ترانہ چند ہی احباب گاتے ہیں

بھلا تو سب کو لگتا ہے مگر سب گا نہیں سکتے

---

موت بھی کتنی بے مروت ہے

سب کے پیاروں کو چھین لیتی ہے

---

میں ہردم محومحنت ہوں کہ میرے پھول سے بچے

مرے سائے تلے پڑھ لکھ کے اک انسان بن جائیں

---

بیٹے کی تعلیم کی خاطر جس نے زیور بیچے تھے

ایسی ماں جب کال کرے تو بہو کا طعنہ سنتی ہے

---

ہم اگر انسان ہیں غلطی کا بھی امکان ہے

بے خطا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں

---

کسی کے ساتھ نکلو اور کچھ آگے نکل جاؤ

پتہ چل جائے گا تم کو عداوت کس کو کہتے ہیں

---

کسی کو تنہا پاکر مار دینا بزدلی ہی ہے

نہتوں کو نہ مارے جو اسی کو مرد کہتے ہیں

---

سنا ہے جب کوئی اردو میں بات کرتا ہے 

تو لفظ لفظ سے اک چاشنی ٹپکتی ہے

---

بعد وصال دل سے یہ اٹھتی رہی صدا

کتنا سکون ہجر کی تنہائیوں میں تھا

---

جب پتہ تھا کہ ٹوٹ جائے گا

کیا ضرورت تھی دل لگانے کی

---

بہت تکلیف دیتی ہے یہ میری سادگی مجھ کو

اسے بھی سہنا پڑتا ہے جسے کوئی نہیں سہتا

---

کل تک سلام کرنے میں بھی عار تھا جنہیں

دولت ملی تو آکے قدم چومنے لگے

---

کس لئے دولت کی کی چاہت میں ہے گرداں روز و شب

ایک دن آئے گا بوں ہی سب پڑا رہ جائے گا

---

طوفان میں بھی حوصلہ اتنا بلند ہو

جانے دو اس کو خود یہ بھنور بولنے لگے

---

دنیا میں کافی لوگ کماتے ہیں نام و زر

مقبولیت بھی جس پہ فدا ہو وہ آپ ہیں

---

زندگی میں جس نے مجھ کو دکھ دیے تھے بارہا

آکے تربت پر مری وہ دیر تک روتا رہا

---

کٹھن ہیں راستے یا راہ میں کتنی رکاؤٹ ہے

جنہیں منزل کی چاہت ہو وہ کچھ دیکھا نہیں کرتے

---

جدید دور کے انساں سے بچ کے رہیے گا

یہ ساتھ رہ کے گلا کاٹنے میں ماہر ہے

---

چہرے پہ جو سکون ہے غربت کے باوجود 

تم ساری جائیداد کے بدلے نہ پاؤگے

---

کیا غضب ہے چاہیے سب کو ہی سہرا جیت کا

ہاں اگر جو ہار ہو بس ہم ہی ذمہ دار ہیں

---

جس کو میں ڈھونڈتا رہا ہر پل ادھر ادھر

وہ تو مرے وجود کی گہرائیوں میں تھا

---

یہ بیماری کا عالم اور یہ مندی کی تکلیفیں

کریں کیوں ریشمی پازیب کی جھنکار کی باتیں

---

ذرا سی زندگانی ہے تکبر کس لئے صاحب

سوا اللہ ہم سب کو یقیناً موت آنی ہے

---

ارادے گر مصمم ہوں قدم پر استقامت ہوں

تو منزل ہم کو لینے کیلئے خود پاس آتی ہے

---

جنگل سے ایک شیر کے جانے کی دیر تھی

کتوں نے سارے دشت کو ہلکان کردیا

---

گھر سے باہر ہوں جب تلک بچے

ماں کو بس بے قرار دیکھا ہے

---

نہ اونچا اٹھائیں نہ نیچا دکھائیں

مقام اپنا سب سے جدا چاہتے ہیں

---

نبی کے صدقے میں جنت کا ہے یقیں ورنہ

ہمارے کام تو سارے عذاب والے ہیں

---

بعد مرنے کے سر آنکھوں پہ بٹھانے والو

ابھی زندہ ہیں تو توقیر ہماری کرلو

---

دشمن تو ڈرکے دور سے ہی گھورتے رہے

احباب آس پاس تھے سرکاٹ لے گئے

---

بچانا وہ اگر چاہے سمندر بھی اگل دے گا

وگرنہ ایک نالے میں بھی انساں ڈوب جاتے ہیں

---

ہم سے روٹھا نہیں جاتا ہے کسی اپنے سے

روٹھ جاتا ہے وہ گر اس کو منا لیتے ہیں

---

جو ہونا ہے ہوکر رہے گا سراسر

تو کتنا بھی خود کو بچاتا رہے گا

---

دلوں کو جوڑ کر رکھنا ملا ہے ہم کو ورثے میں

کبھی تقسیم کرنے کی سیاست ہم نہیں کرتے

---

برے حالات میں اچھے برے کا علم ہوتا ہے

لگے جب ڈوبنے چوہے سفینہ چھوڑ دیتے ہیں

---

فقط مخصوص لوگوں کو ہی قابل مان کر چلنا

نئے ہوں تو بھلا دینا مناسب بات تھوڑی ہے

---

سر سے سایہ اٹھنے کی بس دیری تھی

لوگوں کو فی الفور بدلتے دیکھا ہے

---

کسی اور کی شراکت بھلا کیوں کروں گوارا

یہ جو دل کی سلطنت ہے وہی ایک حکمراں ہے

---

تم ہم سے دوستوں کی دوستی کا حال مت پوچھو

شکیل ہم تو کڑے دشمن سے بھی ہنس کر ہی ملتے ہیں

---

ہزار تحفے لٹا چکے ہو حسین چہروں کی اک ادا پر

کہ ماں کو بھی کچھ دلا سکو تو تبھی تو اصلی کمال ہوگا

---

جاہلوں کو ملے ملتی رہے مسند لیکن

علم والوں کو ہی ہر حال بڑے رہنا ہے

---

معاف اس کے ستم کو کرکے سکون سے میں تو سو رہا تھا

مگر تھی اس کی عجیب حالت تمام شب ہی وہ رو رہا تھا

---

کچھ اس طرح سے اس نے محبت سے بات کی

انکار کرتے کرتے پگھلنا پڑا مجھے

---

یہ دنیا ہے یہاں جو بھی غریبوں کو ستاتا ہے 

تو اس کی اگلی نسلوں کو خدا کشکول دیتا ہے

---

دل جس نے دکھایا تھا کبھی باپ کا ماں کا

اک روز اسے ایڑی رگڑتے ہوئے دیکھا 

---

ہزارکوشش کے بعد بھی جب مرے برابر نہ آسکے تو

سنا ہے اب وہ مرے مقابل مرے رفیقوں کو لارہے ہیں

---

لئے جو سیلفی سب فیس بک پر ڈال دیتے ہیں

اگر یہ سب نہیں ہوتا تو اترانے کہاں جاتے


شکیل اپنی جوشہرت ہے وہ اردو کی بدولت ہے

وگرنہ ہم زمانے بھر میں پہچانے کہاں جاتے

---

یہ انسانی جبلت ہے کسی کو دوش کیا دینا

جسے اونچائی پر دیکھو اسے بدنام کردینا

---

برے اعمال سے فرصت ملے تو یہ ذرا سوچو

گھٹا رحمت کی ہم سے ہربرس کیوں روٹھ جاتی ہے

---

اگرجوان تری شاعری پہ مرتے ہیں

ہمارے فین بھی اکثر حجاب والے ہیں


حصول علم کی خاطر مشقت جو اٹھاتے ہیں

وہی بچے بڑے ہوکر مقام خاص پاتے ہیں


●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●


                          🍁 *شکیلؔ حنیف*🍁


                           *انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں