*⚪ تعارف:: شعرائے مالیگاؤں ⚪*
*پیشکش نمبر :::::: 2 :::::::*
..................................................................
*پیشکش نمبر :::::: 2 :::::::*
..................................................................
*"اپنــــــــــی مٹّـــــــــی ســــــــونا ھـــــــے"*
..................................................................
*عــــــــارؔج مالیـــــــــگانوی*
نام محمّد ابراہیم عــــــــارؔج ابن منشی فتح محمد شہرِ مالیگاؤں میں شبِ جمعہ مورخہ 12 مارچ 1890ء کو پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم یہیں ہوئی۔ ورنا کیولر فائنل کا امتحان 1907ء میں دیا۔
ثانوی تعلیم کے لئے ٹریننگ کالج دھولیہ اور پونہ مرکز تھے جہاں تین سال مسلسل پڑھنے کے بعد 1912ء کے آخر میں بفضلِ خدا درجۂ اوّل کی سند لی۔ شعر و شاعری کا شوق ابتدائے شعور ہی سے تھا مگر کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اس طرف خاص توجہ کی۔ 1913ء میں جلیل القدر حضرتِ جلیؔل جانشینِ امیؔر مینائی طابِ ثراہ سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا۔
اردو پرائمری اسکول مرہٹی اردو ٹریننگ کالج اور انگریزی ہائی اسکول میں مدرسی کے بعد 1924ء میں اسسٹنٹ ڈپٹی ایجوکیشنل انسپکٹر ضلع مغربی خاندیش کی اسامی پر مامور کیا گیا۔ جہاں کی غیر معمولی مصروفیت نے شاعری سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیا۔ آخر 1940ء میں پینشن لے لی۔ یہ سولہ سال شاعری دنیا سے ایک حد تک علیحدگی میں گزرے۔ اس کے بعد احباب کی ملاقاتوں نے خصوصًا برادر خواجہ تاش ۔ جناب مولوی حکیم الدّین محمد انوارلدین ۔ صاحب ۔ عتؔیق حیدر آبادی زادِ عنایتہ کے محبت نامے نے "جو ان دنوں استاذی جلیؔل قبلہ مدظلہ کی خدمت میں پیشی کے محرر تھے" میرے دبے ہوئے جذبات کو اُبھارا اور پھر شعر و سخن کے روح پرور مشغلے کا موقع ملا اور کہنا پڑا؎
*عــــــــارؔج یہی ہے تیرے لئے باعثِ عروج*
*تا زندگی نہ دامنِ شعــــر و سخن کو چھوڑ*
*تا زندگی نہ دامنِ شعــــر و سخن کو چھوڑ*
ناچیز عــــــــارؔج 26 اکتوبر 1945ء
* غـــــــــــــزل *
بھلا زبان پہ جب حرفِ آرزو آئے
رہِ نہ آپ میں ہم جب وہ روبرو آئے
رہِ نہ آپ میں ہم جب وہ روبرو آئے
اگر ترا گُلِ عارض نہ روبرو آئے
نظر یہ خار سی دنیائے رنگ و بُو آئے
نظر یہ خار سی دنیائے رنگ و بُو آئے
بسر ہوں ہجر کے ایّام کچھ تو راحت سے
تیرا خیال ہی آئے اگر نہ تو آئے
تیرا خیال ہی آئے اگر نہ تو آئے
مشامِ جاں میں وہ بس جائے گُلبدن ایسا
قریب خار بھی جاؤں تو گُل کی بُو آئے
قریب خار بھی جاؤں تو گُل کی بُو آئے
کسی کو مُنہ نہ لگائینگے تیرے متوالے
صراحی آئے قدح آئے یا سبو آئے
صراحی آئے قدح آئے یا سبو آئے
کبھی تو اسکو نکلنا نصیب ہو یارب
ہمیشہ رہنے کو کیوں دل میں آرزو آئے
ہمیشہ رہنے کو کیوں دل میں آرزو آئے
بتائیں کیا شبِ غم جو تڑپ رہی دل کی
ہزار مرتبہ ہم آسماں کو چھوڑ آئے
ہزار مرتبہ ہم آسماں کو چھوڑ آئے
پکارتا ہے سرِ طور جلوۂ جاناں
جسے ہو تابِ نظارہ وہ روبرو آئے
جسے ہو تابِ نظارہ وہ روبرو آئے
چمن کے سُنبل و گُل گرگئے نگاہوں سے
نظر جسے تیرے گیسوئے مشکبو آئے
نظر جسے تیرے گیسوئے مشکبو آئے
کرشمہ ہم نے بھی دیکھا یہ بزمِ ساقی کا
خراب و خستہ گئے ہو کے سرخرو آئے
خراب و خستہ گئے ہو کے سرخرو آئے
یہ کہہ کہ تیغ سنبھالی ہے آج قاتل نے
کہ بارِ دوش ہو سر جس کا روبرو آئے
کہ بارِ دوش ہو سر جس کا روبرو آئے
تمہاری دید ہی منظور ہے فقط ہم کو
زباں ہو قطع اگر حرفِ آرزو آئے
زباں ہو قطع اگر حرفِ آرزو آئے
سخن وروں کی گئی قدر منزلت عــــــــارؔج
مشاعروں میں جو یارانِ خوش گلو آئے
مشاعروں میں جو یارانِ خوش گلو آئے
_________*★ :: پیشکش:: ★*_________
*بزمِ تنویرِ ادب وہاٹس ایپ گروپ*
*بزمِ تنویرِ ادب وہاٹس ایپ گروپ*