1947 ہمارے ملک کی تاریخ کا سب سے یادگار سال تھا کیونکہ اسی سال ہمیں انگریزوں کی غلامی سے نجات ملی تھی۔ اس وقت حاجی حنیف صابر صرف ایک سال کے تھے۔ حاجی حنیف صابر کا پورا نام محمد حنیف ابن محمد صابر ابن رحمت اللہ ابن محمد اسحاق ابن عبداللہ ہے۔ ان کے دادا کے دادا عبداللہ اتر پردیش کے مہو شہر کے ایک متمول شخص تھے۔ 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے بعد جب انگریزوں کا ظلم وستم حد سے بڑھ گیا تو اتر پردیش کے مسلمانوں نے اپنی قیمتی زمینوں اور بسا بسایا گھر سنسار چھوڑ کر جنوب کی راہ لی۔ کوئی اندور میں رک گیا تو کوئی برہانپور ۔ دھولیہ اور مالیگاؤں میں رکا۔ کوئی اور آگے جاتے ہوئے بھیونڈی اور ممبئی تک پہنچ گیا۔ ان ہی خانماں برباد لوگوں میں حاجی حنیف صابر کے پردادا عبداللہ اور ان کا خاندان بھی شامل تھا۔ آپ لوگوں نے موسم اور گرنا کے سنگم پر آباد مالیگاؤں کو اپنا مسکن بنایا۔ گھر میں ہی دستی کرگھے پر رنگین ساڑی بننے کی شروعات کی۔ تب سے محمد اسحاق ابن عبداللہ خانوادہ خوش آمدپورہ میں سکونت پذیر ہے۔
*1947 کا بھارت*
15 اگست 1947 کو وطن عزیز کو آزادی کا پروانہ مل گیا۔ جیسے ہی گھڑی کی سوئیوں نے رات بارہ بجنے کا اعلان کیا اور 15 اگست 1947 کی تاریخ شروع ہوئی پورا ملک خوشی سے جھوم اٹھا۔ دہلی کے تاریخی لال قلعہ پر آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ترنگا پرچم لہرایا اور اس طرح ہمارا ملک ایک آزاد ملک بن گیا۔ اس خوشی کے موقع پر بھی جاتے جاتے انگریزوں نے ہمیں دکھ دینے کا کام کیا۔ آزادی کے ساتھ ہی وطن عزیز کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ شمالی مرکزی اور جنوبی ہند جہاں ہندو اکثریت تھی اسے ہندوستان کا نام دیا گیا اور مشرقی و مغربی ہند کے وہ علاقے جہاں مسلم اکثریت تھی انہیں پاکستان کا نام دیا گیا۔ ان کے علاوہ دونوں طرف مختلف راجے مہاراجے اور نوابوں کی بہت ساری چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر دونوں طرف کی تمام ریاستیں نئے وجود میں آئے دونوں ممالک میں ضم ہوگئیں۔ کچھ عرصہ بعد بقیہ ریاستیں بھی ضم ہوگئیں۔ اس کی ایک الگ تاریخ ہے۔ آزادی کے وقت لارڈ ماؤنٹ بیٹن بھارت کے وائسرائے تھے۔ وہ انگریزی حکومت کے آخری گورنر جنرل تھے۔ آزادی کے بعد اقتدار کی مکمل منتقلی تک وہ بھارت کے گورنر جنرل رہے۔ آزادی کے وقت کنگ جارج ششم برطانیہ کے بادشاہ تھے اور ہم نے ان سے ہی آزادی حاصل کی تھی۔ عبوری حکومت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم بنے۔ اسی طرح لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم جبکہ محمد علی جناح وہاں کے پہلے گورنر جنرل بنے۔ تقسیم ہند کے ساتھ ہی ایک کربناک دور شروع ہوا۔ ہندوستان کے مسلمان پاکستان کی طرف تو پاکستان کے ہندو ہندوستان کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ اس مشکل دور میں بھی بہت سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے اپنی مٹی کو چھوڑ کر جانا گوارا نہ کیا۔ شہر مالیگاؤں میں بھی ایسے لوگوں کی اکثریت تھی۔
*1947 کا مالیگاؤں*
یہ مٹی کی محبت ہی تھی کہ اس شہر کے تقریبا تمام لوگوں نے یہیں پر رہنے کا فیصلہ کیا۔ حاجی حنیف صابر صاحب کے دادا رحمت اللہ ۔ والد صابر پہلوان اور چچا محمد عمر نے بھی وطن کی مٹی کو تھامے رکھا۔ حاجی حنیف صابر کے رفیق سحر حاجی محمد ابن احمد قربان بتاتے تھے کہ جس دن آزادی ملی ہر طرف خوشی کا ماحول تھا۔ حاجی محمد صاحب پرائمری میں زیر تعلیم تھے۔ اسکولوں میں بچوں کو شیرینی اور ایک ایک بلہ تقسیم کیا گیا تھا۔ چوک چوراہوں پر لوگوں کا جم غفیر جمع تھا۔ الغرض ہر طرف خوشی کا ماحول تھا۔ آزادی کے وقت مولوی عبدالرزاق مالیگاؤں کے صدربلدیہ جبکہ خان صاحب عبدالرحیم ایم ایل اے تھے۔ اس وقت ہارون احمد انصاری اور عباس علی قاضی جیسے لیڈرس بھی میونسپل کونسلر تھے۔
*ریاستی حالات*
آزادی کے وقت مالیگاؤں بامبے پریسیڈینسی میں تھا۔ آزادی کے ساتھ ہی بہت ساری نوابی ریاستیں بھارت میں شامل ہوئیں۔ جن میں کولہاپور بڑودہ اور ڈانگ جیسی ریاستیں بھی تھیں۔ ان تینوں ریاستوں کو بامبے پریسیڈینسی میں شامل کرکے اسے بامبے اسٹیٹ کا نام دیا گیا۔ آگے چل کرسوراشٹر مراٹھواڑہ اور ودربھ بھی اس کا حصہ بنے۔ 1947 میں بالاصاحب کھیر بامبے کے وزیراعلی تھے۔
*عالمی حالات*
1947 کے آس پاس بھارت کے ساتھ ساتھ دنیا کے بہت سارے ممالک نے برطانیہ فرانس اور دیگر سامراجی ممالک سے آزادی حاصل کی۔ 1947 میں ہی انگریزوں نے فلسطین کو آزاد تو کیا لیکن اسے تقسیم کرتے ہوئے عرب کے قلب میں اسرائیل نامی ملک بناگئے جو فلسطینیوں کی زمین پر مسلسل قبضہ کررہا ہے۔ 1947 میں ہی کشمیر کو لے کر پہلی ہند و پاک جنگ ہوئی تھی۔
(جاری ۔ اگلی قسط نمبر 3 ۔ 1948)
✍🏻 *شکیل حنیف صابر*
(ہمارا مالیگاؤں)
8087003917