(شکیل حنیف)
میں اک چھوٹا بچہ ہوں
اکثر سوچا کرتا ہوں
کاش اگر ایسا ہوتا
سوچو پھر کیسا ہوتا
میں اک موبائل ہوتا
کیا ہی اسٹائل ہوتا
لوگ سویرے جب اٹھتے
مجھ کو ہی دیکھا کرتے
گود میں سب کی ہوتا میں
ہرگز پھر نہ روتا میں
ہردم امی سنگ ہوتا
اور ہی اپنا رنگ ہوتا
ابو باہر جاتے جب
مجھ کو بھی لے جاتے تب
بھیا ہو یا باجی ہو
نانا ہو یا آجی ہو
پیار سبھی مجھ سے کرتے
مجھ کو کھونے سے ڈرتے
گھٹ گھٹ کے نہ مرتا میں
دل جو ہوتا کرتا میں
لیکن میں اک بچہ ہوں
گو کہ من کا سچا ہوں
*(شکیل حنیف)*