جمعہ، 4 فروری، 2022

سوانح حاجی حنیف صابر مع تاریخ مالیگاؤں

 1945 سے 1970 پچیس سالوں کی مالیگاؤں اور دنیا کی تاریخ سے مزین سوانح حاجی حنیف صابر کی *اب تک کی تمام سات قسطیں ایک ساتھ*


*باب اول : دیباچہ*


کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو کہا گیا

سورج ہیں زندگی کی رمق چھوڑ جائیں گے

تادیر جگمگائیں گی ان کی نشانیاں

وہ ڈوب بھی گئے تو شفق چھوڑ جائیں گے۔


قارئین ایسی ہی ایک شخصیت کا نام تھا حاجی محمد حنیف صابر۔ آپ کا 74 سالہ عرصہ حیات جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ تعلیمی سماجی دینی سیاسی صنعتی

تقریبا ہر شعبے میں آپ نے اپنی خدمات کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ حاجی صاحب کی زندگی کے اہم واقعات اور نکات ویب سائٹ   پر مرحلہ وار پیش کئے جائیں گے۔ آپ اپنے موبائل پر دنیا میں کہیں بھی اور کبھی بھی اسے پڑھ سکیں گے۔ اس کے علاوہ اسے پی ڈی ایف اور تصویری شکل میں بھی پیش کیا جائے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کرسکیں۔  یہ صرف سوانح حیات نہ ہو بلکہ اس پورے عرصے کی ایک تاریخی دستاویز بنے۔ اس کیلئے حاجی صاحب کی تاریخ پیدائش یکم مارچ 1946 سے اب تک کے شہر ملک اور دنیا کے اہم واقعات بھی سلسلہ وار اس میں شامل کرنے کی کوشش کروں گا۔ ساتھ ہی ان کے دوست احباب اور متعلقین ٰ اہم سیاسی و سماجی شخصیات کے ابواب بھی شامل ہوں گے۔ ان شاء اللہ۔


*(شکیل حنیف صابر)*


*باب دوم : پیدائش اور اس وقت کے حالات (1946)*


ابھی ہندوستان آزاد نہیں ہوا تھا۔ 1946 کی پہلی سہ ماہی تھی۔ دوسری عالمی جنگ ختم ہوچکی تھی۔ امریکہ نام کا نیا سپر پاور وجود میں آچکا تھا۔ برطانیہ جنگ میں فتح کے باوجود معاشی طور پر قلاش ہوچکا تھا۔ یکے بعد دیگرے ممالک اس کے تسلط سے آزاد ہوئے جارہے تھے۔ شہر مالیگاؤں میں کانگریس کے مولوی عبدالرزاق عبدالمجید میونسپلٹی کے صدربلدیہ تھے تو مسلم لیگ کے خان صاحب عبدالرحیم بطور ایم ایل اے شہر کی نمائندگی کررہے تھے۔  بزرگ بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں پارٹی سے زیادہ مولوی عبدالرزاق گروپ اور خان صاحب گروپ مشہور تھے۔ 


مولوی صاحب اور خان صاحب کے درمیان سیاست عروج پر تھی۔ مگر دونوں نے کبھی بھی مخالف کی پگڑی نہیں اچھالی۔ تعمیری سیاست کو فوقیت دی۔  تین قندیل اور آس پاس کا علاقہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا تھا۔ شہر میں بھی آزادی کے متوالے سرگرم عمل رہتے تھے۔ ایسے ماحول میں یکم مارچ 1946 کو خوش آمد پورہ کے ایک متوسط گھرانے میں محمد صابر پہلوان اور رابعہ بانو کے یہاں پہلے بچے کا جنم ہوا جس کا نام دادا رحمت اللہ نے بڑے پیار سے محمد حنیف رکھا۔ آگے چل کر یہی بچہ حاجی محمد حنیف صابر اور حنیف لیڈر کے نام سے پورے شہر میں مشہور ہوا۔ 


   حاجی حنیف صابر کا پورا نام محمد حنیف ابن محمد صابر ابن رحمت اللہ ابن محمد اسحاق ابن عبداللہ ہے۔ محمد اسحاق عبداللہ اتر پردیش کے مہو شہر کے ایک متمول شخص تھے۔ 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے بعد جب انگریزوں کا ظلم وستم حد سے بڑھ گیا تو اتر پردیش کے مسلمانوں نے اپنی قیمتی زمینوں اور بسا بسایا گھر سنسار چھوڑ کر جنوب کی راہ لی۔ کوئی اندور میں رک گیا تو کوئی برہانپور ۔ دھولیہ اور  مالیگاؤں میں رکا۔  کوئی اور آگے جاتے ہوئے بھیونڈی اور ممبئی تک پہنچ گیا۔  ان ہی خانماں برباد لوگوں میں رحمت اللہ اور محمد اسحاق بھی شامل تھے۔ آپ لوگوں نے موسم اور گرنا کے سنگم پر آباد مالیگاؤں کو اپنا مسکن بنایا۔ گھر میں ہی دستی کرگھے پر رنگین ساڑی بننے کی شروعات کی۔ محمد اسحاق کے دو بیٹے تھے۔ بڑے بیٹے رحمت اللہ اور چھوٹے محمد رمضان۔ دونوں بیٹوں نے آبائی پیشے کو اپنایا اور ساڑی بننے میں والد کی مدد کرنے لگے۔ رحمت اللہ یہ حاجی حنیف صابر کے دادا تھے۔ رحمت اللہ کی شادی سلیمہ بانو سے ہوئی۔ ان کی چھ اولادیں ہوئیں۔ دوبیٹے اور چار بیٹیاں۔ بڑے بیٹے کا نام محمد صابر اور چھوٹے کا نام محمد عمر تھا۔ 1921 میں محمد صابر کی پیدائش ہوئی۔ آپ کو پہلوانی کا شوق تھا اور مالیگاؤں قلعہ میں ہونے والے دنگلوں میں زور و شور سے حصہ لیتے تھے۔ 1943 کے آس پاس محمد صابر کی شادی موتی پورہ کے مشہور ڈومن خانوادے کی رابعہ بنت محمد اسماعیل ڈومن سے ہوئی۔ یہ دوسری عالمی جنگ کا دور تھا۔ جاپان جرمنی ایک طرف تو برطانیہ امریکہ دوسری طرف تھے۔ دنیا دو حصوں میں بٹ چکی تھی۔ ہندوستانی سپاہی بھی برطانیہ کی جانب سے جنگ میں شامل تھے۔ 17 اگست 1944 کو مالیگاؤں میں بڑا سیلاب آیا۔ موسم ندی پورے عروج پر تھی۔ گاؤں میں پانی داخل ہوچکا تھا۔ قلعہ ۔ موتی پورہ جیسے علاقوں میں پانی بھر گیا تھا۔ میری دادی اکثر اس وافعے کا ذکر کرتی تھی کہ کس طرح موتی پورہ سے چندن پوری گیٹ تک رسے باندھے گئے تھے اور ان رسوں کو پکڑ کر دادی کے تمام میکے والے خوش آمد پورہ میں واقع ہمارے گھر پر آئے تھے اور پانی اترنے تک قیام کیا تھا۔ خوش آمد پورہ اور بیلباغ نسبتا اونچائی پر واقع ہیں۔ اس وجہ سے جتنے بھی سیلاب آئے یہ علاقے محفوظ رہے۔ 


پاور لوم آنے کے بعد محمد صابر پہلوان اور ان کے بھائی محمد عمر نے گھر کے نیچے دستی کرگھے کی جگہ پاورلوم لگوایا جس پر دونوں رنگین ساڑی بنا کرتے تھے۔ اس وقت صرف دن میں پاورلوم جاری رہتے تھے اور شام ڈھلے لوگ گھر پہنچ جاتے۔ ان کے پاس بیوی بچوں اور دوست یار کیلئے بھرپور وقت ہوتا۔ گاؤں چھوٹا تھا مگر سب ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشیوں میں برابر شریک ہوا کرتے تھے۔


*باب سوم : بچپن (1946 سے 1950 تک کے حالات)*


حاجی حنیف صابر ابھی ایک برس کے ہی تھے کہ وطن عزیز کو آزادی کا پروانہ مل گیا۔  جیسے ہی گھڑی کی سوئیوں نے رات بارہ بجنے کا اعلان کیا اور 15 اگست 1947 کی تاریخ شروع ہوئی پورا ملک خوشی سے جھوم اٹھا۔ دہلی کے تاریخی لال قلعہ پر آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ترنگا پرچم لہرایا اور اس طرح ہمارا ملک ایک آزاد ملک بن گیا۔ اس خوشی کے موقع پر بھی جاتے جاتے انگریزوں نے ہمیں دکھ دینے کا کام کیا۔ آزادی کے ساتھ ہی وطن عزیز کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ شمالی ٰ  مرکزی اور جنوبی ہند جہاں ہندو اکثریت تھی اسے ہندوستان کا نام دیا گیا اور مشرقی و مغربی ہند کے وہ علاقے جہاں مسلم اکثریت تھی انہیں پاکستان کا نام دیا گیا۔ ان کے علاوہ دونوں طرف مختلف راجے مہاراجے اور نوابوں کی  بہت ساری چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر دونوں طرف کی تمام ریاستیں نئے وجود میں آئے ممالک میں ضم ہوگئیں۔  کچھ عرصہ بعد بقیہ ریاستیں بھی ضم ہوگئیں۔ اس کی ایک الگ تاریخ ہے۔ تقسیم ہند کے ساتھ ہی ایک کربناک دور شروع ہوا۔ ہندوستان کے مسلم پاکستان کی طرف تو پاکستان کے ہندو ہندوستان کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ اس مشکل دور میں بھی بہت سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے اپنی مٹی کو چھوڑ کر جانا گوارا نہ کیا۔ شہر مالیگاؤں میں بھی ایسے لوگوں کی اکثریت تھی۔ 

یہ مٹی کی محبت ہی تھی کہ اس شہر کے لوگوں نے یہیں پر رہنے کا فیصلہ کیا۔ حاجی حنیف صابر کے رفیق سحر حاجی محمد ابن احمد قربان بتاتے ہیں کہ جس دن آزادی ملی ہر طرف خوشی کا ماحول تھا۔ حاجی محمد صاحب پرائمری میں زیر تعلیم تھے۔ اسکولوں میں بچوں کو شیرینی اور ایک ایک بلہ تقسیم کیا گیا تھا۔ چوک چوراہوں پر لوگوں کا جم غفیر جمع تھا۔ الغرض ہر طرف خوشی کا ماحول تھا۔ 

حاجی حنیف صابر صاحب کے دادا رحمت اللہ ۔ والد صابر پہلوان اور چچا محمد عمر نے بھی وطن کی مٹی کو تھامے رکھا۔ خوش آمدپورہ کی کشادہ گلیوں میں حاجی حنیف صابر پروان چڑھے۔ آپ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اس لئے دادا دادی اور خاندان میں سب کے لاڈلے تھے۔ آپ کے بچپن میں (1946 سے 1950) آزادی وطن کے علاوہ شہر  , ملک اور دنیا میں اور بھی بہت سارے اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے۔ 1945 سے 1950 کی میونسپل باڈی میں مولوی عبدالرزاق ہی بدستور صدربلدیہ رہے۔ آپ 1942 میں صدربلدیہ بنے تھے۔ اس باڈی میں ہارون انصاری اور عباس علی قاضی جیسے لیڈرس بھی کونسلر تھے۔ اسی طرح اس عرصے میں خانصاحب عبدالرحبم شہر کے ایم ایل اے رہے۔ آپ 1937 میں پہلی بار ایم ایل اے بنے تھے جبکہ دوسری بار 1946 سے 1952 یعنی آزاد ہندوستان کے پہلے الیکشن تک آپ شہر کے ایم ایل اے رہے۔ چالیس کی دہائی کے آخر میں ہی مستقبل کے عظیم لیڈر اور حاجی حنیف صابر کے سیاسی رہنما ساتھی نہال احمد نے سیاست میں قدم رکھا۔ 1950 میں آپ نے پہلا میونسپل الیکشن لڑا مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے باوجود آپ نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی محنت و لگن سے وہ کامیابی حاصل کی کہ تقریبا نصف صدی تک نہ صرف اس شہر پر آپ چھائے رہے بلکہ ملگ گیر شہرت حاصل کی۔ 

آزادی وطن کے علاوہ اہم شہری واقعات پر نظر ڈالیں تو 1948 میں قربانی کے سوال پر مالیگاؤں کے حالات خراب ہوگئے تھے۔ میری دادی بتاتی تھیں کہ اس وقت فوج کی سکھ بٹالین شہر میں وارد ہوئی تھی۔ ہمارے بزرگ اکثر اس واقعے کا ذکر کرتے ہیں۔

1947 میں آزادی اور تقسیم ہند کے بعد جواہر لال نہرو بھارت کے پہلے وزیراعظم بنے۔ اس وقت بھارت کا دستور نہیں بنا تھا اور صدرجمہوریہ کا عہدہ تخلیق نہیں ہوا تھا۔ اس لئے دستور بننے تک صدر مملکت کی ذمہ داریاں گورنر جنرل کے پاس تھیں۔ ماؤنٹ بیٹن آخری انگریز گورنر جنرل تھے۔ انہوں نے ہی آزاد ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ 1948 میں راج گوپال اچاریہ گورنر جنرل بنے اور 1950 میں پہلے صدر جمہوریہ کے انتخاب تک آپ نے ذمہ داریاں نبھائیں۔ اسی طرح 1947 میں کشمیر کو لے کر ہند و پاک کے درمیان پہلی جنگ ہوئی۔  1948 میں حیدرآباد پولیس ایکشن ہوا۔ جس کے بعد حیدرآباد بھارت میں شامل ہوگیا۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو  میں ہی امریکہ کی ایماء پر 1948 میں اقوام متحدہ کی ایک قراداد کے ذریعے فلسطین کی زمین پر اسرائیل نامی ملک کا قیام عمل میں آیا اور عربوں کو ایک طویل جنگ میں جھونک دیا گیا۔ اس دوران 26 جنوری 1950 کو بھارت کا دستور نافذ ہوا۔ جس کی رو سے ہمارا ملک ایک سیکولر جمہوری ملک قرار دیا گیا۔ ایسا طرز حکومت اختیار کیا گیا جس میں صدر اور وزیراعظم دونوں کا اپنا ایک مقام ہو۔ جمہوری ملک بننے کے بعد گورنر جنرل کی جگہ  پریسیڈنٹ آف انڈیا یعنی صدر جمہوریہ نے لے لی۔ اس طرح 1950 میں ڈاکٹر راجندر پرساد ملک کے پہلے صدرجمہوریہ منتخب ہوئے۔


*باب چہارم : بچپن (1950 سے 1955 تک کے حالات)*


26 جنوری 1950 کو دستور کے نفاذ کے ساتھ ہی ہندوستان ایک نئے دور میں قدم رکھ چکا تھا۔ اس وقت حاجی حنیف صابر چار سال کے تھے۔ 1950 میں مالیگاؤں کی آبادی 54000 تھی۔  سیاست میں خانصاحب اور مولوی عبدالرزاق کی جگہ صابر ستار ۔ ہارون انصاری ۔ آزاد انصاری ۔ ڈاکٹر شیخ سلیم ۔ عباس علی قاضی جیسے نئے لیڈرس لینے لگے تھے۔ حاجی حنیف صابر کے سیاسی رہنما ساتھی نہال احمد بھی سیاست میں داخل ہوچکے تھے۔ دسمبر 1950 تک مولوی عبدالرزاق صدربلدیہ رہے۔ 1950 میں میونسپل الیکشن ہوئے اور دسمبر 1950 سے 1952 تک منگل داس بھاؤسار شہر کے صدربلدیہ رہے۔ ملکی حالات پر نظر ڈالیں تو 1950 میں نئے دستور کے مطابق ملک میں نئی حکومت کیلئے انتخابات کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ 1951 کے اواخر اور 1952 کے شروع میں آزاد ہندوستان میں لوک سبھا کے پہلے انتخابات ہوئے۔ مالیگاؤں اس وقت بامبے اسٹیٹ میں تھا۔ آگے چل کر یکم مئی 1960 میں بامبے اسٹیٹ کی تقسیم ہوئی اور گجرات اور مہاراشٹر دو نئی ریاستیں وجود میں آئیں۔ تب مالیگاؤں مہارشٹر کے حصے میں آیا۔ آزادی سے قبل بامبے اسٹیٹ بامبے پریسیڈینسی کہلاتی تھی جس کا ہیڈکوارٹر بامبے شہر تھا۔ بامبے شہر کی بھی دلچسپ تاریخ ہے۔ یہ پہلے پرتگیزوں کے قبضے میں تھا۔ 1662 میں شہزادہ چارلس دوم کی شادی پرتگیز شہزادی کیتھرائن سے ہوئی۔ اس وقت بامبے شہر بطور جہیز شہزادہ چارلس کو دے دیا گیا۔ بالاصاحب گنگادھر کھیر بامبے اسٹیٹ کے پہلے وزیراعلی تھے۔ آپ 1952 تک بامبے کے وزیراعلی رہے۔  آزادی کے بعد 1952 میں پہلے پارلیمانی الیکشن ہوئے۔ شہر مالیگاؤں ناسک حلقہ پارلیمان کا حصہ تھا۔ 27 مارچ 1952 کو الیکشن ہوا جس میں کانگریس کے دیشپانڈے گوند ہری نے کامیابی حاصل کی اور ناسک حلقے کے پہلے ایم پی بنے۔ پنڈت جواہر لال نہرو ایک بار پھر وزیراعظم منتخب ہوئے۔ پارلیمانی الیکشن کے ساتھ 1952 میں ہی بامبے اسٹیٹ کی اسمبلی کے بھی انتخابات ہوئے۔ آج کی طرح اس وقت بھی شمالی مالیگاؤں اور جنوبی مالیگاؤں + شمالی ناندگاؤں اس طرح دو حلقہ اسمبلی تھے مگر حدبندی تھوڑا الگ تھی۔  شمالی مالیگاؤں سے محمد صابر عبدالستار المعروف صابر ستار نے ہارون انصاری کو شکست دی اور ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ اس طرح آپ نے آزادی کے بعد شہر کے پہلے ایم ایل اے ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ اسی طرح جنوبی مالیگاؤں + ناندگاؤں نامی حلقہ اسمبلی سے بھاؤ صاحب ہیرے پہلے ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ اس الیکشن کے بعد مرار جی دیسائی بامبے کے وزیراعلی منتخب ہوئے۔ نیا دستور بننے کے بعد 1950 میں ڈاکٹر راجندر پرساد بھارت کے پہلے صدر جمہوریہ منتخب ہوئے تھے لیکن 1952 میں پہلی بار صدارتی انتخاب ہوا جس میں ڈاکٹر راجندر پرساد نے کے ٹی شاہ کو شکست دی اور دوسری بار صدر جمہوریہ منتخب ہوئے۔ اسی طرح ڈاکٹر رادھا کرشنن بلامقابلہ نائب صدر منتخب کئے گئے۔ عالمی منظر نامے پر شمالی و جنوبی کوریا ایک دوسرے سے برسر پیکار تھے۔ روس اور امریکہ کی سرد جنگ کا آغاز ہوچکا تھا۔

اسی دوران 1952 میں چھ سال کی عمر میں حاجی حنیف صابر کا داخلہ چونا بھٹی پر اسکول نمبر 4 میں  کروایا گیا۔ جماعت اول سے ہی آپ کو مشہور مورخ ٰ ادیب اور شاعر ڈاکٹر الیاس صدیقی صاحب جیسے دوستوں کا ساتھ ملا۔ 

ڈاکٹر الیاس صدیقی صاحب بتاتے ہیں کہ پرائمری اسکول میں ان کے ایک ٹیچر ناصر جناب نے بچوں میں شعر و شاعری سے دلچسپی پیدا کرنے کی غرض سے کلاس کے تمام طلبہ کا ایک تخلص رکھا تھا۔ اس طرح الیاس صدیقی صاحب کو ناصح اور حنیف صابر صاحب کو ہلچل تخلص ملا تھا۔ صدیقی صاحب نے مذاقا کہا کہ یہ تخلص کا ہی اثر تھا کہ میں زندگی بھر نصیحت کرتا رہا اور حنیف نے ہلچل مچائے رکھی۔ دینی تعلیم آپ نے خانقاہ اشرفیہ سے حاصل کی اور ناظرہ قرآن پاک ختم کیا۔ آپ حفظ تو نہ کرسکے لیکن قرآن کی اکثر سورتیں زبانی یاد تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ گھر میں تلاوت کے وقت کسی سے غلطی ہوجائے تو فورا اصلاح کیا کرتے تھے۔  

حاجی صاحب شروع سے ہی کافی ذہین تھے۔ میری پھوپھی بتاتی ہیں کہ آپ کو دین سے اتنا لگاؤ تھا کہ بچپن میں زیادہ تر وقت مسجد میں علماء کی صحبت میں ہی گزرتا تھا۔ 

1952 میں شہر مندی کی شدید لپیٹ میں آگیا۔ لوگ کام کی تلاش میں کھیتوں میں جانے لگے۔ کوئی پھلی توڑتا تو کوئی گنا توڑ کر کچھ پیسے کما لیتا۔ حکومت کی جانب سے بطور امداد لوگوں سے کھڈا کھودوانے کا کام  شروع کیا گیا۔ اسی دوران شہر میں پہلی بار سفید کپڑوں کی تیاری شروع ہوئی اور بہت سارے لوگ اس نئے کاروبار سے منسلک ہوگئے۔ 1952 میں آزاد انصاری صدربلدیہ بنے۔ 1953 میں ڈاکٹر شیخ سلیم کو یہ عہدہ ملا لیکن اسی سال پھر سے آزاد انصاری صدربلدیہ بن گئے۔ 1954 میں شہر کی پہلی اردو ہائی اسکول اینگلو اردو ہائی اسکول انجمن ترقی تعلیم کے زیر انصرام آئی اور اے ٹی ٹی ہائی اسکول بنی۔  1954 میں میونسپل انتخابات ہوئے۔ اس باڈی میں ہارون احمد انصاری صدربلدیہ منتخب ہوئے۔ اسی باڈی میں حاجی حنیف صابر کے سیاسی استاد ۔ خیرخواہ ۔ ساتھی اور رہنما ساتھی نہال احمد بھی پہلی بار کونسلر منتخب ہوئے۔ آپ کا اور حاجی حنیف صابر کا ساتھ مرتے دم تک قائم رہا۔ حاجی حنیف صابر نے سیاست میں کب اور کس طرح قدم رکھا اس کا تفصیلی ذکر آگے کے ابواب میں آئے گا۔


*باب پنجم ۔ لڑکپن (1955 سے 1960 تک کے حالات)*


*1955 سے 1960 ان پانچ سالوں کی شہری ۔ ملکی اور عالمی تاریخ سے مزین سوانح حاجی حنیف صابر کا باب پنجم (پانچویں قسط) پیش خدمت ہے۔*


پچاس کی دہائی میں دنیا میں زبردست تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ دنیا کے بیشتر غلام ممالک یکے بعد دیگرے برطانیہ اور فرانس جیسی سامراجی طاقتوں سے آزادی حاصل کرتے گئے۔ وہ برطانیہ جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اپنی مقامی سرحدوں تک سکڑ گیا تھا۔ 1955 میں مالیگاؤں کی آبادی 78 ہزار تھی۔ اس وقت صدر بلدیہ کی میعاد ایک سال ہوتی تھی۔  مئی 1955 میں ڈاکٹر شیخ سلیم صدربلدیہ بنے اور ایک سال بعد 1956 میں عباس علی قاضی اس عہدے پر براجمان ہوئے۔ 1956 میں ہی مرارجی دیسائی کی جگہ  یشونت راؤ چوہان بامبے اسٹیٹ کے وزیراعلی بنے۔ آپ کو بامبے کا آخری اور مہاراشٹر کا پہلا وزیراعلی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس دوران حاجی حنیف صابر پرائمری میں زیرتعلیم تھے۔ اسکول کے بعد آپ گھر کے کاموں میں بھی  والدین کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ گھر کا پاورلوم تھا اس لئے جب بھی موقع ملتا لوم چلانے کی مشق کیا کرتے تھے۔  1956 میں دوسری عرب اسرائیل جنگ ہوئی۔  مشہور زمانہ نہر سوئز مصر کے زیر انصرام آئی۔  اوپیک ۔ ناسا ۔ جیسے کئی عالمی اداروں کی بنیاد رکھی گئی۔ 

1957 میں مالیگاؤں حلقہ پارلیمان وجود میں آیا۔ اس سال بھارت کے پارلیمانی حلقوں کی ازسر نو تشکیل ہوئی تھی اور ناسک حلقہ پارلیمان کے بیشتر حصوں پر مشتمل ایک نیا حلقہ پارلیمان مالیگاؤں کے نام سے بنا تھا۔ اس طرح ملک کے دوسرے پارلیمانی الیکشن میں پرجا سوشلسٹ پارٹی کے یادو نارائن جادھو مالیگاؤں کے پہلے ایم پی منتخب ہوئے۔ آپ نے کانگریس کے ملہار بیڑکر کو شکست دی۔ پنڈت نہرو ایک بار پھر وزیراعظم بنائے گئے۔ 1957 کے صدارتی انتخاب میں ایک بار پھر ڈاکٹر راجندر پرساد صدرجمہوریہ اور ڈاکٹر رادھا کرشنن نائب صدر منتخب ہوئے۔ اسی سال 25 فروری 1957 کو بامبے اسمبلی کے بھی الیکشن ہوئے جس میں شمالی مالیگاؤں حلقے سے پرجا سوشلسٹ پارٹی کے ہارون احمد انصاری ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ انہوں نے مالیگاؤں کے اولین اور کانگریس کے سیٹنگ ایم ایل اے صابر ستار کو شکست دی اور پچھلے الیکشن کی ہار کا بدلہ لیا۔ اس وقت آج کے مالیگاؤں آؤٹر کے بیشتر علاقے شمالی ناندگاؤں و جنوبی مالیگاؤں نامی حلقہ اسمبلی میں شامل تھے۔ وہاں سے بھاؤ صاحب ہیرے لگاتار دوسری بار ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ یشونت راؤ چوہان بامبے کے وزیراعلی بنے۔ مالیگاؤں کے ایم پی اور ایم ایل اے دونوں پرجا سوشلسٹ پارٹی کے تھے۔ شہر میں کانگریس کے ساتھ ساتھ سوشلسٹ پارٹی کا زور تھا۔ مئی 1957 میں میونسپل کونسلر اور ایم ایل اے ہارون احمدانصاری مالیگاؤں کے صدربلدیہ بھی بنائے گئے۔ یہ وہ سال تھا جب روس نے اسپوتنک نامی زمین کے گرد گردش کرنے والا پہلا مصنوعی سیارہ خلاء میں بھیجا۔ حاجی حنیف صابر بچپن سے لڑکپن کی جانب رواں دواں تھے۔ اسکول کے ساتھ ساتھ مسجد خانقاہ اشرفیہ اور دارالعلوم اہلسنت اشرفیہ آپ کی دلچسپی اور سرگرمیوں کا مرکز تھے۔ جب بھی اسکول اور گھریلو مصروفیات سے فرصت ملتی مسجد و مدرسے کو وقت دیتے اور اکثر علماء کی محفلوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ 

1958 میں میونسپل الیکشن ہوئے۔ ساتھی نہال احمد لگاتار دوسری بار کونسلر منتخب ہوئے۔  وٹھل گنپت کاڑھے صدربلدیہ بنے۔ اسی چناؤ میں قلعہ سے عبدالحمید عظیم اللہ المعروف حمید ممبر پہلی بار کونسلر بنے۔ آگے چل کر آپ حاجی حنیف صابر کے خسر بنے۔ جس کا ذکر اگلے ابواب میں آئے گا۔ 1958 میں ہی مشہور مسلم رہنما مولانا آزاد کا انتقال ہوا۔ 

1959 میں حاجی حنیف صابر نے ساتویں جماعت کامیاب کی۔ اس زمانے میں ساتویں پاس کرنا فائنل پاس کرنا کہلاتا تھا اور اس کی کافی اہمیت تھی۔ آپ آگے پڑھنا چاہتے تھے۔ آپ کے اساتذہ اور ساتھیوں نے بھی کافی کوشش کی کہ آپ تھوڑا اور پڑھ کر ٹیچر بن جائیں مگر آپ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اس لئے آگے کی پڑھائی ترک کرکے پاورلوم کے آبائی پیشے سے منسلک ہوگئے اور گھر کی ذمہ داریوں میں والد کا ہاتھ بٹانے لگے۔ گو کہ آپ نے صرف ساتویں تک تعلیم حاصل کی تھی مگر آپ کا دماغ کمپیوٹر کی طرح چلتا تھا۔ اکثر جب کوئی حساب کتاب کا معاملہ ہوتا یا کوئی تحریر لکھنی ہوتی آپ اتنی تیزی سے حساب کرتے یا جملوں کی ڈرافٹنگ کرتے کہ مجھ جیسے کئی ڈگری یافتہ عش عش کرتے رہ جاتے۔ 1959 میں ڈاکٹر شیخ سلیم اور 1960 میں رگھونندن پاٹل شہر کے صدربلدیہ رہے۔ 1959 میں ہی روس کی جانب سے پہلا غیر انسانی راکٹ چاند پر پہنچا۔ دوسری طرف امریکہ نے بھی دو بندروں کے ساتھ کسی جاندار پر مشتمل پہلا راکٹ خلاء میں روانہ کیا۔ 1960 آتے آتے مالیگاؤں کی آبادی ایک لاکھ پندرہ ہزار ہوچکی تھی۔  یکم مئی 1960 کو بامبے اسٹیٹ تقسیم کرکے گجرات اور مہاراشٹر دو نئی ریاستیں بنائی گئیں۔ اس کا تفصیلی ذکر اگلے باب میں آئے گا۔


*باب ششم ۔ نوجوانی (1960 سے 1965 تک کے حالات)*


ساٹھ کی دہائی آتے آتے 1950 میں 54 ہزار کی آبادی رکھنے والا مالیگاؤں ایک لاکھ کا ہندسہ پار کرتے ہوئے 1960 میں ایک لاکھ پندرہ ہزار کی آبادی والا شہر بن چکا تھا۔ حاجی حنیف صابر لڑکپن سے نوجوانی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ فائنل پاس کرنے کے بعد آپ گھر کے پاورلوم پر اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے۔ لڑکپن سے ہی آپ کو آبائی پیشے کے ساتھ ساتھ مختلف تجارتی سرگرمیوں میں دلچسپی رہی۔ آپ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور شروع سے ہی آپ نے ایک مشفق سرپرست کی طرح سب کی بہترین تربیت و نگرانی کی۔ 1960 میں ہی بامبے اسٹیٹ کو تقسیم کرکے مہاراشٹر اور گجرات دو نئی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا۔ ممبئی گجرات کے حصے میں جانے والی تھی لیکن کافی تحریکوں کے بعد بالآخر وہ مہاراشٹر کو ہی ملی۔

جون 1960 میں ڈاکٹر شیخ سلیم کے بعد رگھونندن پاٹل شہر کے صدربلدیہ بنے۔ ایک سال بعد 6 جون 1961 کو ساتھی نہال احمد شہر کے صدربلدیہ بنے۔ آپ 17 جون 1962 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس دوران ایک دبنگ اور بلند حوصلہ سوشلسٹ لیڈر کے طور پر نہال صاحب کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ 1961 میں ہی گوا اور دیو دمن بھی آزاد ہوکر بھارت میں شامل ہوگئے اور اس طرح وہاں سے پرتگیزوں کے ساڑھے چار سو سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ اسی سال روس کے یوری گاگارین خلاء میں پہنچنے والے پہلے خلاء باز بنے۔

1962 میں حاجی حنیف صابر سولہ برس کے ہوچکے تھے۔  بچپن سے ہی آپ کو مخلص دوستوں کا ساتھ ملا تھا۔ تمام ساتھیوں کا تفصیلی ذکر اگلے ابواب میں آئے گا۔ حاجی صاحب نے جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو گھریلو ذمہ داریوں کے بعد جو وقت ملتا اس میں دوستوں کے ساتھ مختلف سماجی ۔ دینی و فلاحی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہتے تھے۔ 

1962 میں مہاراشٹر اسمبلی کے پہلے انتخابات ہوئے۔ شمالی مالیگاؤں نامی حلقہ اب صرف مالیگاؤں ہوچکا تھا۔  مالیگاؤں سے پرجا سوشلسٹ پارٹی کے سیٹنگ ایم ایل اے ہارون انصاری نے اس بار کانگریس سے امیدواری کی۔ ان کے مقابلے میں پرجا سوشلسٹ پارٹی نے اس وقت کے صدربلدیہ ساتھی نہال احمد کو امیدوار بنایا۔ صرف ایک ہزار ووٹوں کے فرق سے ہارون انصاری کامیاب رہے۔ 19 فروری 1962 کو ہونے والا یہ الیکشن ساتھی نہال احمد کا پہلا اسمبلی الیکشن تھا۔ اسی الیکشن سے آپ کا اورنوجوان حاجی حنیف صابر کا ساتھ ہوا جو تاعمر قائم رہا۔ حاجی صاحب نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ 1962 میں نہال صاحب کسی معاملے میں ایک مظلوم کو لے کر چار چاک کی گاڑی پر تحریک چلا رہے تھے۔ سولہ سال کے نوجوان حاجی حنیف صابر کا گزر ادھر سے ہوا۔ نہال صاحب کا مظلوموں کے لئے درد بھرا یہ تحریکی انداز انہیں اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اسی وقت ان کا ساتھ پکڑ لیا۔ حاجی صاحب نے نہال صاحب سے کہا کہ صاحب میں آپ کے ساتھ چلوں گا۔ صاحب نے اس وقت ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ اگر روپئے پیسے کمانے کیلئے میرے ساتھ آنا ہے تو کبھی مت آنا۔ ہاں خدمت کے جذبے سے آنا ہے تو ساتھ چلو۔ حاجی صاحب نے کہا کہ مجھے تو آپ کی طرح بس لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔ اس طرح حاجی صاحب کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔ یہ 55 سالہ بے مثال دوستی کا بھی نقطہ آغاز تھا۔ ایک ایسی دوستی ایک ایسا ساتھ جو ہر طرح کی مفاد پرستی اور انتشار سے پاک تھی۔ حاجی صاحب نے پہلے دن جو بات کہی تھی وہ صرف ایک جملہ نہیں تھا بلکہ عملی طور پر آپ نے اسے ثابت بھی کیا۔ یہی وجہ تھی کہ صاحب بھی حاجی صاحب کو کافی عزیز رکھتے تھے۔ نہال صاحب کے طویل سیاسی سفر میں ہر طرح کے حالات آئے لیکن حاجی صاحب نے کبھی بھی نہال صاحب کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ نہال صاحب  بھی حاجی صاحب کے ساتھ ویسا ہی رویہ رکھتے تھے۔

دونوں کے ساتھ کا تفصیلی ذکر اگلے ابواب میں آئے گا۔ 

جنوبی مالیگاؤں + شمالی ناندگاؤں نامی حلقے کا نام اب صرف ناندگاؤں کردیا گیا تھا۔ وہاں سے بھاؤ صاحب ہیرے کے فرزند وینکٹ راؤ ہیرے نے کامیابی حاصل کی۔

ماروت راؤ کنموار مہارشٹر کے وزیراعلی بنے مگر 1963 میں ان کی موت ہوگئی جس کے بعد پی کے ساونت عارضی وزیر اعلی اور پھر وسنت راؤ نائک پوری ٹرم کیلئے وزیر اعلی بنے۔

1962 جہاں حاجی صاحب کے سیاست میں داخلے کا سال رہا وہیں اس میں کئی اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے۔ اسمبلی انتخابات کے علاوہ اسی سال ملک کا تیسرا صدارتی انتخاب ہوا اور ڈاکٹر رادھا کرشنن صدرجمہوریہ بنے۔ آپ ڈاکٹر راجندر پرساد کے دور میں نائب صدر رہے تھے۔ اسی سال ملک کے تیسرے پارلیمانی انتخابات ہوئے اور جواہر لال نہرو چوتھی بار ملک کے وزیراعظم بنے۔ مالیگاؤں حلقہ پارلیمان سے مادھو راؤ لکشمن جادھو نے پرجا سوشلسٹ پارٹی کے سیٹنگ ایم پی یادو نارائن جادھو کو شکست دے دی اور مالیگاؤں حلقہ پارلیمان کے دوسرے ایم پی بنے۔

1962 میں ہی میونسپلٹی کے انتخابات بھی ہوئے۔ نہال صاحب نیاپورہ سے لگاتار تیسری بار کونسلر منتخب ہوئے۔ عبدالحمید ممبر قلعہ سے لگاتار دوسری مرتبہ منتخب ہوئے۔ اسی باڈی میں شبیر سیٹھ اور ڈاکٹر نول رائے شاہ پہلی بار کونسلر بنے۔ 

1962 میں ہی چین نے اچانک بھارت پر حملہ کردیا۔ 

اس دوران نوجوان حنیف صابر دینی و سماجی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی تحریکوں اور جلسوں میں بھی پیش پیش رہنے لگے۔ آپ نہال صاحب کے اہم ساتھی تھے لیکن آپ کا یہ خاص وصف تھا کہ آپ نے کبھی اسٹیج پر بیٹھنے کو فوقیت نہیں دی بلکہ بیشتر اوقات آپ سامنے پٹیوں پر عوام کے ساتھ بیٹھ کر اپنے رہنما اور دیگر ساتھیوں کی تقاریر سنا کرتے تھے۔

اگلے کچھ سالوں میں شہر و ملک میں کئی ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے۔ 

جہاں 63 میں ملک کے پہلے صدر جمہوریہ کا انتقال ہوگیا وہیں 1964 میں ملک نے اپنا پہلا وزبراعظم بھی کھودیا۔ نہرو کی اچانک موت کے بعد گلزاری لال نندہ کارگزار وزیر اعظم بنے۔ 13 دنوں کے بعد لال بہادر شاشتری کو ملک کا دوسرا وزیراعظم چنا گیا۔ 

1965 حاجی حنیف صابر کی زندگی کا ایک اہم سال تھا۔ 27 جون 1965 کو آپ کا عقد  محلہ قلعہ کی مشہور شخصیت میونسپل کونسلر عبدالحمید ممبر کی دختر نیک اختر مہرالنساء کے ساتھ ہوا۔ شادی کے بعد ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوگیا لیکن حاجی صاحب نے اپنی گھریلو ۔ معاشی ۔ سیاسی ۔ سماجی ۔ دینی اور تعلیمی مصروفیات میں اس خوبصورتی سے توازن قائم رکھا کہ کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں ملا۔

اس دوران 1962 میں عبدالسلام عبدالرزاق ۔ 1963 میں مادھو ہری وڑگے اور 1964 میں ڈاکٹر شیخ سلیم شہر کے صدر بلدیہ رہے۔



*باب ہفتم ۔ جوانی اور 1965 سے 1970 تک کی مختصر مقامی ۔ ملکی و عالمی تاریخ*


حاجی حنیف صابر کے والد محترم محمد صابر پہلوان نہایت نرم دل اور شفیق طبیعت کے مالک تھے۔ آپ شروع سے ہی گھر کے معاملات میں حاجی صاحب کی آراء کو کافی اہمیت دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شادی بیاہ ہو یا موت میت شروع سے ہی حاجی صاحب تمام کاموں میں قائدانہ کردار ادا کیا کرتے تھے۔ 1965 میں مالیگاؤں کی آبادی ایک لاکھ اڑتالیس ہزار ہوچکی تھی۔ اس وقت پاورلوم صرف دن میں چلا کرتے تھے مگر کچھ لوگ ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد بھی کام کیا کرتے تھے۔ اسے سوائی ڈیوٹی کہتے تھے۔ اپنی سیاسی و سماجی دلچسپیوں کے باوجود حاجی صاحب نے محنت سے کبھی روگردانی نہیں کی۔ اگر دن میں کوئی مصروفیت ہوتی تو رات میں سوائی چلا کر اس کا ازالہ کرلیا کرتے تھے۔ اکثر شام میں دوست احباب اکٹھا ہوتے۔ آپ کے احباب میں مرتضی حسن احمد ۔ برکت اللہ استاد ۔ اقبال احمد ۔ نظام الدین  ۔ محمد یعقوب جیسے بہت سارے بچپن کے دوست شامل تھے۔ آپ لوگوں کی بزم جوہر نام سے ایک کلب تھی۔ جو شروع سے مختلف فلاحی کاموں میں پیش پیش رہا کرتی تھی۔ مسجد خانقاہ اشرفیہ کی تعمیر کا معاملہ ہو یا شہر پر کسی مصیبت کا وقت ہو جوہر کلب کے اراکین پیش پیش رہتے تھے۔ آپ احباب مختلف کھیلوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ حاجی صاحب اپنی ٹیم کے کپتان تھے۔ حاجی صاحب اور کلب کے اراکین کبڈی کے مقابلوں کے انعقاد میں بھی پیش پیش رہا کرتے تھے۔ آپ لوگ میلاد کی محفلوں میں بھی عقیدت و احترام سے شریک ہوا کرتے تھے۔ 

جون 1965 میں حاجی صاحب کی شادی ہوئی اس وقت پرجا سوشلسٹ پارٹی کے ڈاکٹر نول رائے شاہ آٹھ دن قبل ہی صدربلدیہ بنے تھے۔ نہال صاحب پرجا سوشلسٹ پارٹی کے مقامی قائد تھے۔ 1965 میں ہی شہر کی پہلی اردو پرائمری اسکول سوئیس ماڈل پرائمری اسکول کا قیام عمل میں آیا۔ 1965 دوسری ہند پاک جنگ کیلئے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اسی جنگ میں ہندوستان کے بہادر سپوت شہید عبدالحمید نے تن تنہا پاکستان کے سات ٹینکوں کو تباہ کردیا تھا اور آٹھویں ٹینک کو تباہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔

اس جنگ کے وقت لال بہادر شاستری بھارت کے وزیراعظم اور جنرل ایوب پاکستان کے صدر تھے۔ 10 جنوری 1966 کو روس کی ثالثی میں دونوں کے درمیان اس وقت کے روسی شہر اور آج کے ازبیکستان کی راجدھانی تاشقند میں تاریخی امن معاہدہ ہوا۔ مگر دوسرے روز تاشقند میں ہی لال بہادر شاشتری کی پراسرار موت ہوگئی۔ گلزاری لال نندہ ایک بار پھر سے کارگزار وزیراعظم بنائے گئے۔ 13 دن بعد 24 جنوری 1966 کو اندرا گاندھی پہلی بار وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہوئیں۔ 1966 میں میونسپلٹی معطل رہی اور وی پی رائے نے پرشاسک کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ 1967 انتخابات کا سال رہا۔ 

21 فروری 1967 کو مہاراشٹر اسمبلی کا الیکشن ہوا۔ جس میں کانگریس کے سیٹنگ ایم ایل اے ہارون احمد انصاری اور پرجا سوشلسٹ پارٹی کے ابھرتے ہوئے لیڈر ساتھی نہال احمد کا ایک بار پھر مقابلہ ہوا۔ جس میں ساتھی نہال احمد نے 21565 ووٹ حاصل کی جبکہ ہارون احمد انصاری کو 13924 ووٹ ملے۔ اس طرح 7641 ووٹوں کے مارجن سے جیت حاصل کرتے ہوئے ساتھی نہال احمد مالیگاؤں کے ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ اسی سال ناند گاؤں سے الگ کرکے مالیگاؤں تعلقہ کے بیشتر دیہاتوں پر مشتمل دابھاڑی حلقہ وجود میں آیا۔ جہاں سے کانگریس کے وی بی ہیرے پہلے ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ انہوں نے سنگھٹنا سوشلسٹ پارٹی کے ایس این پاٹل کو شکست دی تھی۔ مہاراشٹر میں کانگریس کی حکومت بنی اور وسنت راؤ نائک دوبارہ وزیراعلی بنے۔ 

1967 میں ہی پارلمینٹ کے الیکشن بھی ہوئے۔ اسی سال پہلی بار مالیگاؤں حلقہ پارلیمان پسماندہ طبقات (ایس ٹی) کیلئے ریزرو ہوا۔ اس الیکشن میں کانگریس کے زیڈ ایم کہاندوڑے اور آر پی آئی کے ڈی آر مورے کے درمیان الیکشن ہوا۔ کہاندوڑے کو 140167 اور مورے کو 130965 ووٹ ملے۔ اس طرح کہاندوڑے پہلی بار مالیگاؤں کے ایم پی بنے۔  

پرشاسک ہٹنے کے بعد 1967 میں میونسپل انتخابات ہوئے اور یکم اگست 1967 کو نئی باڈی منتخب ہوئی۔  ڈاکٹر خلیل احمد انصاری صدربلدیہ بنے۔ ان تمام انتخابات میں حاجی حنیف صابر اور ان کے ساتھیوں نے بھی ساتھی نہال احمد کی قیادت میں پرجا سوشلسٹ پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کیلئے بھرپور محنت کی۔ 1967 میں حکومت نے پاور لوم پر رنگین ساڑی بننے پر پابندی لگا دی۔ اس کے خلاف نہال صاحب کی قیادت میں تحریک شروع ہوئی۔ اس میں بھی حاجی حنیف صابر پیش پیش رہا کرتے تھے۔ نہال صاحب کے ہر مورچے ۔ میٹنگ  اور جلسوں میں حاجی صاحب کی شرکت یقینی رہا کرتی تھی۔

1967 میں چوتھے صدارتی انتخابات بھی ہوئے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین صدر جمہوریہ اور وی وی گری نائب صدر منتخب ہوئے۔ اس طرح ڈاکٹر ڈاکر حسین کو بھارت کا پہلا مسلم صدرجمہوریہ بننے کا شرف حاصل ہوا۔  1967 میں ہی دوسری عرب اسرائیل جنگ ہوئی۔ مصر کے جمال عبدالناصر کی قیادت میں قریب تھا کہ اسرائیل اپنے انجام کو پہنچ جاتا لیکن امریکہ کی پس پردہ حمایت سے اسرائیل نا صرف فاتح رہا بلکہ عربوں نے وادی سینا ۔ غزہ پٹی ۔ مغربی کنارہ ۔ بیت المقدس اور گولان پہاڑی جیسے بیش بہا علاقے بھی کھودیے۔ 1968 میں حاجی صاحب کے آنگن میں ایک ننھی پری کی آمد ہوئی۔ جس کا نام ثریا رکھا گیا۔ اس سال حاجی زین العابدین مالیگاؤں کے صدربلدیہ بنے۔ 1969 میں حاجی شبیر احمد المعروف شبیر سیٹھ پہلی بار صدر بلدیہ بنے۔ اسی سال 9 ستمبر 1969 کو شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب آیا۔ جو اپنے ساتھ تباہی کی ایک تاریخ رقم کر گیا۔ قدرتی آفات ہوں یا کوئی اور معاملہ اس شہر کا نوجوان شروع سے ہی اپنی بیش بہا خدمات پیش کرتا آیا ہے۔ چندنپوری گیٹ ۔ کھڈا میں بھی سیلابی پانی گھروں میں گھسنے لگا۔ دیگر نوجوانوں کے ساتھ حاجی حنیف صابر اور ان کے ساتھی بھی لوگوں کا سامان بحفاظت نکلوانے اور دیگر امدادی کاموں میں جٹ گئے۔ اس دوران کا ایک اہم واقعہ محلے کے اکثر بزرگ سناتے ہیں کہ جب سیلاب آیا تو مسجد خانقاہ اشرفیہ میں کچھوچھہ مقدسہ کی بزرگ شخصیت سرکارکلاں مختار اشرف قیام پذیر تھے۔ سیلابی پانی مسجد تک پہنچ چکا تھا۔ اس وقت حضرت نے ایک تعویذ پانی میں ڈالنے کو دی اور اللہ سے دعا کی۔ لوگوں نے دیکھا کہ اللہ کے کرم سے کچھ ہی دیر میں پانی اترنے لگا۔ 

1969 میں صدرجمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کا انتقال ہوگیا۔ ان کی جگہ نائب صد وی وی گری نے کارگزار صدر کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کیلئے وی وی گری نے استعفی دیا تو جسٹس ہدایت اللہ کارگزار صدر بنے۔ 1969 کے اس الیکشن میں وی وی گری نے نیلم سنجیوا ریڈی کو شکست دی اور صدرجمہوریہ منتخب ہوئے۔ اس چناؤ میں گوپال پاٹھک نائب صدر منتخب ہوئے۔ اسی سال 20 جولائی 1969 کو وہ دن بھی آیا جب صدیوں سے چاند کو حسرت سے تکنے والا انسان نیل آرم اسٹرانگ کی صورت میں پہلی بار چاند پر اترا۔ 

(آٹھویں قسط بہت جلد۔ ان شاء اللہ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں