ازقلم : پروفیسر مبین نذیر
عبدالمجید ولد نور محمد عرف مجید انور کی ولادت مالیگاؤں میں ہوئی۔مالیگاؤں ہائی اسکول سے نویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔ابتداء ہی سے مطالعہ کا شوق رہا۔ کثرت مطالعہ کے باعث جلد ہی لکھنے کی جانب مائل ہو گئے۔اسکول کے زمانے میں ہی لکھنے کی ابتداء کی۔ اسکول کے بعد جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو پاورلوم کی سخت محنت و مشقت کے ساتھ ساتھ گیسوئے اردو کو سنوارنے میں بھی منہمک رہے۔1992 میں "سرخ رومال والے " کے نام سے ایک افسانوی مجموعہ لے کر ادبی دنیا میں جلوہ گر ہوئے اور ایک گہرا نقش چھوڑگئے۔لیکن یہاں ہمارا موضوع ان کی افسانہ نگاری نہیں بلکہ ادب اطفال کے لئے کی جانے والی ان کی مخلصانہ خدمات پر طائرانہ نظر ڈالنا ہے۔
کسی دانشو ر کا قول ہے کہ “Child is the father of the Man" '"یعنی بچہ آدمی کا باپ ہوتا ہے۔"
دوسرےالفاظ میں بچہ اپنے باپ سے دو قدم آگے ہوتا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ جس طرح ہم بچوں کی غذا ،لباس ، تعلیم اور دیگر ضروریات کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح ان کی تربیت کے لئے اچھے اور تعمیری ادب سے ان کو روشناس کرایا جائے۔اردومیں ادب اطفال پر اس معیار اور مقدار میں کام نہیں ہوا ہے جتنی آج کے دور میں اس کی ضرورت اور اہمیت ہے۔ افسانہ نگاری کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منانے کے باوجود مجید انور نے جب اس بات کو محسوس کیا کہ ادب اطفال میں کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے تو انھوں نے اپنی پوری توجہ ادب اطفال کی جانب مرکوز کردی ۔اور یہاں بھی اپنے اخلاص اور انفرادیت کی وجہ سے کامیاب رہے۔ مجید انور نے عزم کیا کہ ہر مہینہ ایک مختصر ناول پیش کریں گے۔ اپنے اس ارادےکی تکمیل کی جانب نہایت جاں فشانی سے کام شروع کیا ۔بعد میں طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے وہ اس سلسلے کو جاری نہیں رکھ سکے۔ادب اطفال میں مجید انور نے کہکشاں سیریز کے نام سے کل سات ناول پیش کئے ۔اس سیریز کا پہلا ناول "پاگل ہاتھی "ہے۔جو 32 صفحات پرمشتمل ایک دلچسپ مہماتی ناول ہے۔اس کےپیش لفظ میں" ستارے اور سیارے" کے عنوان سے مجید انور لکھتے ہیں ' ،
" کہکشاں سیریز کی پہلی کتاب پاگل ہاتھی حاضر ہے۔ اردو میں بچوں کا ادب تشویش ناک حد تک سمٹ گیا ہے۔چند رسائل ہیں جو مقدور بھر بچوں کی ذہنی تفریح کا سامان مہیا کررہے ہیں۔نسبتا بڑی عمر یعنی ہائی اسکول کے بچوں کے لئے لکھی ہوئی کتابیں تو بہت ہی قلیل مقدار میں نظر آتی ہیں۔اسی صورت حال کے پیش نظر کہکشاں سیریز کے تحت ایک کتابی سلسلہ شروع کیا جاررہا ہے۔یہ کتابیں خاص طور سے ہائی اسکول کے بچوں کے لئے لکھی جاررہی ہیں۔اس میں ہر ماہ ایک طویل اور مکمل جاسوسی ،سماجی،سائنسی ،تاریخی، اور ایڈونچر سے بھر پور مہماتی کہانی پیش کی جائے گی۔جس میں بچوں کی بھر پور ذہنی تفریح کے ساتھ ساتھ اصلاحی پہلو بھی شامل ہے۔کہکشاں سیریز کا بنیادی مقصد اردو پڑھنے والے بچوں میں کتابیں پڑھنے کا رجحان پیدا کرنا ہے۔تاکہ وہ آج کے "اردو شکن عہد" میں اردو زبان اور اردو تہذیب سے قریب تر ہوں۔"
پاگل ہاتھی ایک ایسے ہاتھی کی کہانی ہے جو جنگلات کی کٹائی اور دیگر ماحول مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے پاگل ہوچکا ہے اور کئی افراد کی جان لے چکا ہے۔اس ناول میں اس پاگل ہاتھی کو ختم کرنے کی کہانی کو مجید انور نے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ساتھ ہی انسان کی ماحول اور قدرت کے نظام میں بے جا مداخلت پر بھی چوٹ کی ہے۔
اسی ناول کے تعلق سے عادل سمیر کے خیالات ملاحظہ ہوں ،
" مجید انور پاگل ہاتھی پر سوار کہکشاں سیریز کے ذریعے بچوں کی دنیا میں ہر ماہ ایک نئی کتاب لئے حاضر ہونے کی آرزو میں سفر رنجا ہیں۔پاگل ہاتھی مہمات، کھوج اور شکاریات سے دلچسپی رکھنے والے مہم جو مزاج بچوں کے لئے ایک خوبصورت تحفہ ہے۔"
پاگل ہاتھی کے بعد ناول "سانپوں کا کنواں" منصہ شہود پر آیا۔اور اس ناول نے بھی قبولیت عام کی سند حاصل کرلی۔اس میں مجید انور نے ایک بہادر بچے کی داستان شجاعت کو پیش کیا ہےکہ کس طرح وہ اپنی بہادری اور حاضر دماغی سے لٹیروں اور غنڈوں کو تنہاء ٹھکانے لگاتا ہے۔اور پولس کو ڈکیتی کے مال اور مجرموں تک پہنچاتا ہے۔"وہ کون تھا" کہکشاں سیریز کا تیسرا ناول ہے۔جس میں مجید انور نے ایک مدرسے کے دو شرارتی بچوں کی کہانی کومرکز بنا کر ان کے معمولات، شرارت اورتعلیمی عمل کو دلپذیر انداز میں بیان کرکے بچوں کو اچھے اخلاق و عادات اور دیگر اقدار کا درس دیا ہے۔اس ناول کا مرکزی کردار"رضوان" ہے جو مدرسے سے اپنے وطن واپس لوٹنے کے بعدمدرسے میں زیر تعلیم اپنے دوست کو خط لکھ کر اپنے متعلق کچھ یوں انکشاف کرتا ہے ،
" پتہ نہیں تم یقین کرو گے یا نہیں ، بہر حال سنو ! میں انسان نہیں ہوں۔ میں جنوں کی بستی سے آیا تھا ۔میں ایک جن ہوں ۔مجھ کو سزا کے طور پر اس مدرسے میں بھیجا گیا تھا۔ مجھ کو سزا کیوں دی گئی یہ ایک لمبی کہانی ہے، پھر کبھی ملاقات ہوگی تو سناؤں گا۔اور میں یہ بھی بتادوں کہ بہت جلد ہماری ملاقات ہوگی۔"
چوتھے اور پانچویں ناول میں ایک کہانی کو مجید انور نے دوحصوں میں پیش کیا ہے۔ناول کا ہیرو '"مینو"ایک نڈر اور بے خوف لڑکا ہے ۔ جب سارے گاؤں والے سمندری لٹیروں کے خوف سے چھپ جاتے ہیں اس وقت" 'مینو"اکیلا ہمت اور حکمت سے لٹیروں کو ختم کرتا ہے۔ اورناول کے دوسرے حصے میں گہرے سمندر میں ان لٹیروں کے ٹھکانے کا پتہ لگا کر تن تنہاء تمام سمندری لٹیروں سے لڑتا ہے اور ان کو ختم کرکے واپس اپنے گاؤں لوٹ آتا ہے۔اس سیریز کا چھٹا ناول "موت کی جھیل" ہے۔ناول کاقصہ مجید انور کی زندگی کا ایک حقیقی واقعہ ہے۔جسے انھوں نے اپنی فکری و فنی صلاحیتوں کی بناء پر ایک مختصر ، پر اثر اور دلچسپ ناول کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔اس ناول میں بھی بچوں کو سیر و تفریح کے
وقت احتیاطی تدابیر اوردیگر ضروری باتوں کو بیان کیا ہے۔اس کے بعد آخری ناول "چڑیوں کا شہر " ہے۔ جس میں چڑیوں کے ایک شہر کے واقعات مختلف واقعات کا تمثیلی پیرائے میں ذکر کرتے ہوئے مجید انور نے انسانوں کی بہت سی برائیوں کی نشان دہی کی ہے۔ساتھ ہی بچوں کو ان برائیوں سے بچنے اور محنت و مشقت کرنے کی ترغیب بھی دی ہے۔اس دل پذیر ناول کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
چڑیوں کی اسکول کے ٹیچر بچوں کو انسانوں کا تعارف کچھ اس طرح کراتے ہیں۔
"انسان کے دو ہاتھ اور دو پاؤں ہوتے ہیں۔یہ دو پیروں سے چلتا ہے۔ہماری طرح ہوا میں اڑ نہیں سکتا۔لیکن چالاک اتنا ہے کہ اڑنے والی مشین بنا چکا ہے۔"
انسانوں کی خود غرضی اور مفاد پرستی پر مجید انور نے کچھ اس طرح طنز کیا ہے۔
" جب اس کی غرض ہوتی ہے،سر جھکا کر ہر بات مان لیتا ہے۔چاپلوسی سے کام لیتا ہےاور جہاں مطلب نکل گیا ، نظریں پھیر لیتا ہے۔بلکہ اپنے محسن کو بھی نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتا۔"
اسی طرح بچوں کو بزرگوں کا ادب و احترام اور دوسروں کی مدد کی تلقین کا درس ناول کے مرکزی کردار '" نیلو ' کے" ذریعے اس طرح کرتے ہیں۔
" میں اسی راستے سے گھر جارہی ہوں۔لاؤ یہ گٹھا مجھے دے دو ۔کچھ دور میں لے کر چلوں گی۔"
اسی کے ساتھ مجید انور نے گٹکا ، پان اور تمباکو کھانے والے والدین ،سرپرستوں پر بھی نشانہ سادھا ہے۔آخر میں" ' کھٹ بڑھئی" ' جو اس ناول کا اہم کردار ہے چڑیا کے چھوٹے چھوٹے بچے جو ایک جگہ دانہ دیکھ کر شکاری کے جال میں پھنس جاتے ہیں ، کو درس دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ،
"دیکھو بچو! اس دنیا میں کوئی چیز بغیر محنت ، مشقت کے نہیں ملتی ۔ اگر کبھی تم کو کوئی ایسی چیز ملے تو سمجھ لینا اس کے پیچھے کوئی جال ہے اور اس جال کے پیچھے تمھاری آزای ختم کرنے والا کوئی نہ کوئی پنجرہ ہوگا۔"
تمام ناولوں کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مجید انور بچوں کی نفسیات اور دور جدید میں ادب اطفال کے نئے تقاضوں سے واقف ہیں۔اور ان ہی کو مد نظر رکھ کر ادب اطفال تخلیق کرتے ہیں۔ ایمانداری، جفاکشی، مستقل مزاجی،جیسی صفات بچوں میں پیدا ہوں اس کی کامیاب شعوری کوشش کرتے ہیں۔معروف افسانہ نگار سلطان سبحانی ادب اطفال میں حقیقت نگاری کے متعلق لکھتے ہیں،
"خیالی ، بے مقصد اور محض تفریحی کہانیاں کیوں لکھی جاتی ہیں؟یہ شاید لکھنے والے بھی نہیں جانتے۔بچوں کے سامنے جھن جھنا یا بانسری بجادینے سے ان کے مستقبل میں کوئی نکھار نہیں آسکتا ۔ایسی کہانیاں بچے بہت جلد بھول جاتے ہیں۔لیکن وہ کہانیاں کبھی نہیں بھول پاتے جن میں انھیں کوئی سبق دیا گیا ہو یا انھیں زندگی کی حقیقت سے نبردآزما ہونے کی طاقت پہنچائی گئی ہو۔"
مجید انور کے تمام ناول ، کہانیوں کی اسی نہ بھولنے والی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔جو بچوں کو تفریح کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ اور شعورعطا کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تقریبا دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی کہکشاں سیریز کے ناول بچوں میں مقبول ہیں۔جن کے ذریعے مجید انور نونہالان قوم کے ذہن و دل پر پرسچائی، ایمان داری،امانت داری، مستقل مزاجی، اور جفاکشی کا نقش کندہ کررہے ہیں۔
افسوس مورخہ 28 جنوری 2022 بروز سنیچر کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ـ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون
اللہ پاک مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ـ آمین ثم آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں