1960 سے 1965 ان پانچ سالوں کی مختصر شہری ۔ ریاستی ۔ ملکی اور عالمی تاریخ سے مزین سوانح حاجی حنیف صابر کی چھٹی قسط (باب ششم)
ساٹھ کی دہائی آتے آتے 1950 میں 54 ہزار کی آبادی رکھنے والا مالیگاؤں ایک لاکھ کا ہندسہ پار کرتے ہوئے 1960 میں ایک لاکھ پندرہ ہزار کی آبادی والا شہر بن چکا تھا۔ حاجی حنیف صابر لڑکپن سے نوجوانی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ فائنل پاس کرنے کے بعد
آپ گھر کے پاورلوم پر اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے۔ لڑکپن سے ہی آپ کو آبائی پیشے کے ساتھ ساتھ مختلف تجارتی سرگرمیوں میں دلچسپی رہی۔ آپ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور شروع سے ہی آپ نے ایک مشفق سرپرست کی طرح سب کی بہترین تربیت و نگرانی کی۔ 1960 میں ہی بامبے اسٹیٹ کو تقسیم کرکے مہاراشٹر اور گجرات دو نئی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا۔ ممبئی گجرات کے حصے میں جانے والی تھی لیکن کافی تحریکوں کے بعد بالآخر وہ مہاراشٹر کو ہی ملی۔جون 1960 میں ڈاکٹر شیخ سلیم کے بعد رگھونندن پاٹل شہر کے صدربلدیہ بنے۔ ایک سال بعد 6 جون 1961 کو ساتھی نہال احمد شہر کے صدربلدیہ بنے۔ آپ 17 جون 1962 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس دوران ایک دبنگ اور بلند حوصلہ سوشلسٹ لیڈر کے طور پر نہال صاحب کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ 1961 میں ہی گوا اور دیو دمن بھی آزاد ہوکر بھارت میں شامل ہوگئے اور اس طرح وہاں سے پرتگیزوں کے ساڑھے چار سو سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ اسی سال روس کے یوری گاگارین خلاء میں پہنچنے والے پہلے خلاء باز بنے۔
1962 میں حاجی حنیف صابر سولہ برس کے ہوچکے تھے۔ بچپن سے ہی آپ کو مخلص دوستوں کا ساتھ ملا تھا۔ تمام ساتھیوں کا تفصیلی ذکر اگلے ابواب میں آئے گا۔ حاجی صاحب نے جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو گھریلو ذمہ داریوں کے بعد جو وقت ملتا اس میں دوستوں کے ساتھ مختلف سماجی ۔ دینی و فلاحی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہتے تھے۔
1962 میں مہاراشٹر اسمبلی کے پہلے انتخابات ہوئے۔ شمالی مالیگاؤں نامی حلقہ اب صرف مالیگاؤں ہوچکا تھا۔ مالیگاؤں سے پرجا سوشلسٹ پارٹی کے سیٹنگ ایم ایل اے ہارون انصاری نے اس بار کانگریس سے امیدواری کی۔ ان کے مقابلے میں پرجا سوشلسٹ پارٹی نے اس وقت کے صدربلدیہ ساتھی نہال احمد کو امیدوار بنایا۔ صرف ایک ہزار ووٹوں کے فرق سے ہارون انصاری کامیاب رہے۔ 19 فروری 1962 کو ہونے والا یہ الیکشن ساتھی نہال احمد کا پہلا اسمبلی الیکشن تھا۔ اسی الیکشن سے آپ کا اورنوجوان حاجی حنیف صابر کا ساتھ ہوا جو تاعمر قائم رہا۔ حاجی صاحب نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ 1962 میں نہال صاحب کسی معاملے میں ایک مظلوم کو لے کر چار چاک کی گاڑی پر تحریک چلا رہے تھے۔ سولہ سال کے نوجوان حاجی حنیف صابر کا گزر ادھر سے ہوا۔ نہال صاحب کا مظلوموں کے لئے درد بھرا یہ تحریکی انداز انہیں اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اسی وقت ان کا ساتھ پکڑ لیا۔ حاجی صاحب نے نہال صاحب سے کہا کہ صاحب میں آپ کے ساتھ چلوں گا۔ صاحب نے اس وقت ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ اگر روپئے پیسے کمانے کیلئے میرے ساتھ آنا ہے تو کبھی مت آنا۔ ہاں خدمت کے جذبے سے آنا ہے تو ساتھ چلو۔ حاجی صاحب نے کہا کہ مجھے تو آپ کی طرح بس لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔ اس طرح حاجی صاحب کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔ یہ 55 سالہ بے مثال دوستی کا بھی نقطہ آغاز تھا۔ ایک ایسی دوستی ایک ایسا ساتھ جو ہر طرح کی مفاد پرستی اور انتشار سے پاک تھی۔ حاجی صاحب نے پہلے دن جو بات کہی تھی وہ صرف ایک جملہ نہیں تھا بلکہ عملی طور پر آپ نے اسے ثابت بھی کیا۔ یہی وجہ تھی کہ صاحب بھی حاجی صاحب کو کافی عزیز رکھتے تھے۔ نہال صاحب کے طویل سیاسی سفر میں ہر طرح کے حالات آئے لیکن حاجی صاحب نے کبھی بھی نہال صاحب کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ نہال صاحب بھی حاجی صاحب کے ساتھ ویسا ہی رویہ رکھتے تھے۔
دونوں کے ساتھ کا تفصیلی ذکر اگلے ابواب میں آئے گا۔
جنوبی مالیگاؤں + شمالی ناندگاؤں نامی حلقے کا نام اب صرف ناندگاؤں کردیا گیا تھا۔ وہاں سے بھاؤ صاحب ہیرے کے فرزند وینکٹ راؤ ہیرے نے کامیابی حاصل کی۔
ماروت راؤ کنموار مہارشٹر کے وزیراعلی بنے مگر 1963 میں ان کی موت ہوگئی جس کے بعد پی کے ساونت عارضی وزیر اعلی اور پھر وسنت راؤ نائک پوری ٹرم کیلئے وزیر اعلی بنے۔
1962 جہاں حاجی صاحب کے سیاست میں داخلے کا سال رہا وہیں اس میں کئی اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے۔ اسمبلی انتخابات کے علاوہ اسی سال ملک کا تیسرا صدارتی انتخاب ہوا اور ڈاکٹر رادھا کرشنن صدرجمہوریہ بنے۔ آپ ڈاکٹر راجندر پرساد کے دور میں نائب صدر رہے تھے۔ اسی سال ملک کے تیسرے پارلیمانی انتخابات ہوئے اور جواہر لال نہرو چوتھی بار ملک کے وزیراعظم بنے۔ مالیگاؤں حلقہ پارلیمان سے مادھو راؤ لکشمن جادھو نے پرجا سوشلسٹ پارٹی کے سیٹنگ ایم پی یادو نارائن جادھو کو شکست دے دی اور مالیگاؤں حلقہ پارلیمان کے دوسرے ایم پی بنے۔
1962 میں ہی میونسپلٹی کے انتخابات بھی ہوئے۔ نہال صاحب نیاپورہ سے لگاتار تیسری بار کونسلر منتخب ہوئے۔ عبدالحمید ممبر قلعہ سے لگاتار دوسری مرتبہ منتخب ہوئے۔ اسی باڈی میں شبیر سیٹھ اور ڈاکٹر نول رائے شاہ پہلی بار کونسلر بنے۔
1962 میں ہی چین نے اچانک بھارت پر حملہ کردیا۔
اس دوران نوجوان حنیف صابر دینی و سماجی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی تحریکوں اور جلسوں میں بھی پیش پیش رہنے لگے۔ آپ نہال صاحب کے اہم ساتھی تھے لیکن آپ کا یہ خاص وصف تھا کہ آپ نے کبھی اسٹیج پر بیٹھنے کو فوقیت نہیں دی بلکہ بیشتر اوقات آپ سامنے پٹیوں پر عوام کے ساتھ بیٹھ کر اپنے رہنما اور دیگر ساتھیوں کی تقاریر سنا کرتے تھے۔
اگلے کچھ سالوں میں شہر و ملک میں کئی ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے۔
جہاں 63 میں ملک کے پہلے صدر جمہوریہ کا انتقال ہوگیا وہیں 1964 میں ملک نے اپنا پہلا وزبراعظم بھی کھودیا۔ نہرو کی اچانک موت کے بعد گلزاری لال نندہ کارگزار وزیر اعظم بنے۔ 13 دنوں کے بعد لال بہادر شاشتری کو ملک کا دوسرا وزیراعظم چنا گیا۔
1965 حاجی حنیف صابر کی زندگی کا ایک اہم سال تھا۔ 27 جون 1965 کو آپ کا عقد محلہ قلعہ کی مشہور شخصیت میونسپل کونسلر عبدالحمید ممبر کی دختر نیک اختر مہرالنساء کے ساتھ ہوا۔ شادی کے بعد ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوگیا لیکن حاجی صاحب نے اپنی گھریلو ۔ معاشی ۔ سیاسی ۔ سماجی ۔ دینی اور تعلیمی مصروفیات میں اس خوبصورتی سے توازن قائم رکھا کہ کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں ملا۔
اس دوران 1962 میں عبدالسلام عبدالرزاق ۔ 1963 میں مادھو ہری وڑگے اور 1964 میں ڈاکٹر شیخ سلیم شہر کے صدر بلدیہ رہے۔