یہ مانتے ہیں کہ سیخ و کباب والے ہیں
مگر ہم ان میں نہیں جو شراب والے ہیں
وہ ظلم کرکے بھی پہچان میں نہیں آتے
ہمارے سارے ستم گر نقاب والے ہیں
بزرگی آگئی لیکن جوان دکھتے ہیں
جو سر کے بال ہیں کالے خضاب والے ہیں
اگرچہ مندی ہے لیکن یہ بات بھی سچ ہے
ہمارے شوق تو سارے نواب والے ہیں
نبی کے صدقے میں جنت کا ہے یقیں ورنہ
ہمارے کام تو سارے عذاب والے ہیں
فدا جواں جو ہیں پروین تیرے شعروں پر
شکیل کے بھی تو شیدا حجاب والے ہیں
(شکیل حنیف)
بحر مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
( مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں