لافنا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں
یاں سدا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں
ہم اگر انسان ہیں غلطی کا بھی امکان ہے
بے خطا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں
کب سبھی کچھ چھوڑ کر کس کو چلے جانا پڑے
جانتا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں
جس کو دیکھو دوسروں پر ہے فدا کیا کیجیے
بے وفا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں
پاک ہے دامن یہ دعوی کون ہے جو کر سکے
پارسا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں
سن شکیل احمد یہاں ہم سے بھی بہتر لوگ ہیں
انتہا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں
*(شکیل حنیف)*
بحر رمل مثمن محذوف
(فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں