پیر، 3 جنوری، 2022

لافنا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں


لافنا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں

یاں سدا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں


ہم اگر انسان ہیں غلطی کا بھی امکان ہے

بے خطا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں


کب سبھی کچھ چھوڑ کر کس کو چلے جانا پڑے

جانتا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں


جس کو دیکھو دوسروں پر ہے فدا کیا کیجیے

بے وفا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں


پاک ہے دامن یہ دعوی کون ہے جو کر سکے

پارسا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں


سن شکیل احمد یہاں ہم سے بھی بہتر لوگ ہیں

انتہا میں بھی نہیں تو بھی نہیں وہ بھی نہیں


*(شکیل حنیف)*


بحر رمل مثمن محذوف

(فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں