31 دسمبر 2021

سال نو یہ تو بتا


چپکے چپکے سے دبے پاؤں چلا آیا ہے

سالِ نو یہ تو بتا ساتھ میں کیا لایا ہے


پھر فسادات کی خوں ریز کہانی ہے کیا

پھر وباؤں میں وہ پہلی سی روانی ہے کیا

پھر سے بازار میں مندی وہ پرانی ہے کیا

کیا تری شکل وہی اب بھی وہی کایا ہے

سالِ نو یہ تو بتا ساتھ میں کیا لایا ہے


چپکے چپکے سے دبے پاؤں چلا آیا ہے

سالِ نو یہ تو بتا ساتھ میں کیا لایا ہے


پھر غریبوں کو ستانے کا ارادہ ہے ترا

دردمندوں کو رلانے کا ارادہ ہے ترا

آندھیاں پھر سے چلانے کا ارادہ ہے ترا

کیا بتائے گا بھلا کس کو بتا پایا ہے

سالِ نو یہ تو بتا ساتھ میں کیا لایا ہے


چپکے چپکے سے دبے پاؤں چلا آیا ہے

سالِ نو یہ تو بتا ساتھ میں کیا لایا ہے


پھر بھری جھومتی گاتی ہوئی گلیاں لے آ

درد کانٹوں کے سہے دلنشیں کلیاں لے آ

تلخ خواروں کے لئے قند کی ڈلیاں لے آ

تجھ پہ قربان اس انداز سے گر آیا ہے

سالِ نو یہ تو بتا ساتھ میں کیا لایا ہے


چپکے چپکے سے دبے پاؤں چلا آیا ہے

سالِ نو یہ تو بتا ساتھ میں کیا لایا ہے


(شکیل حنیف)


*(شکیل حنیف)*

*بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع*

(فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں