اتوار، 2 جنوری، 2022

کیسا بھی ہو دور بدلتے دیکھا ہے


کیسا بھی ہو دَور بدلتے دیکھا ہے

ہر ظالم کا جَور بدلتے دیکھا ہے


آقا کے پرنور قدم کی برکت سے

بختِ غارِ ثَور بدلتے دیکھا ہے


سایہ اپنے سر سے پدر کا اٹھتے ہی

لوگوں کو فی الفور بدلتے دیکھا ہے


مجھ سے بہتر علم تو تم سب کو ہوگا 

کیا کیا تم نے اور بدلتے دیکھا ہے


دنیا موسم دور زمانہ جو بھی ہو

کرلو اس پرغور بدلتے دیکھا ہے


جن کی خاطر درد شکیل احمد جھیلے 

ایسوں کا بھی طور بدلتے دیکھا ہے


(شکیل حنیف)


بحر متقارب مسدس مضاعف

(فعلن فعلن فعْل فعولن فعلن فع)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں