ہفتہ، 1 جنوری، 2022

مجھ کو جو سچی داد اے ہمدم کہیں ملی


مجھ کو جو سچی داد اے ہمدم کہیں ملی

اہلِ ادب کی بزم میں یعنی یہیں ملی


اک روز سب ہی چھوڑ کے جانا پڑا مجھے

دنیا بہت پسند تھی وہ بھی نہیں ملی


گرداں رہا زمین کے چکر میں روز و شب

آخر ملی تو مجھ کو بھی دوگز زمیں ملی


پلکیں جھپکنا بھول گیا سانس تھم گئی

کچھ اس ادا سے مجھ سے وہ زہرہ جبیں ملی


یادوں کو میری اس نے رکھا تھا سنبھال کر

چھوڑی تھی جو بھی چیز جہاں وہ وہیں ملی


جو کچھ کہا تھا میں نے وہی سب ہوا شکیل

ہر بات ہی قیاس سے بالکل قریں ملی


*(شکیل حنیف)*


بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

(مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں