میرے ایک شناسا کی بھانجی کی شادی کے چند برسوں میں ہی آپسی چپقلش اور رسہ کشی شروع ہوگئی۔
ساتھ ہی مصالحت کی کوششیں بھی ہونے لگی۔ لیکن تعلقات کی بحالی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ اور دونوں فریقین کی جانب سے ایسا محسوس ہونے لگا کہ اب علحیدگی کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔
پھر ایک مصالحتی نشست ہوئی جس میں میاں اور بیوی دونوں کو درگزر کرنے، معاف کرنے اور تھوڑا برداشت کرنے کی صلاح دی گئی۔
دونوں کو بات سمجھ میں آگئی اور دونوں نے آئندہ کسی بات کا بتنگڑ نہیں بنانے کا عہد کیا۔
چھ مہینوں میں ہی بہو خاندان کی سب سے چہیتی بہو بن گئی اور اب خاندان کے ہر فیصلے میں بہو کی رائے لازمی بن گئی ہے۔
میری ایسے تمام خاندانوں سے، جہاں کشیدہ تعلقات کے معاملات ہیں، ہاتھ جوڑ کر گذارش ہے کہ برائے کرم جلد بازی نہ کریں، ایک دوسرے کو موقع دیں، تھوڑی سمجھ داری دکھائیں، بہت ممکن ہے جو آج سب سے زیادہ نا پسند ہے وہی کل سب سے چہیتا بن جائے ۔
صبر شرط ہے۔
عبدالماجد انصاری،
وائس پرنسپل، مہاراشٹر کالج