بدھ، 18 نومبر، 2020

شبلی نعمانی

محسن اردو علامہ شبلی نعمانی صاحب کا یوم وفات......18 نومبر

(طارق اسلم) 18 نومبر 1914ء کو اردو زبان کو علمی سرمائے سے مالا مال کرنے والے نامور ادیب علامہ شبلی نعمانی کا انتقال ہوگیا۔ علامہ شبلی نعمانی کا اصل نام محمد شبلی تھا تاہم حضرت امام ابو حنیفہ کے اصل نام نعمان بن ثابت کی نسبت سے انہوں نے اپنا نام شبلی نعمانی رکھ لیا تھا۔ وہ 1857ء میں

اعظم گڑھ کے ایک نواحی قصبے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تعلیم بڑے اچھے ماحول اور اپنے عہد کے اعلیٰ ترین درس گاہوں میں ہوئی۔ 1882ء میں وہ علی گڑھ کالج کے شعبۂ عربی سے منسلک ہوگئے، یہاں انہیں سرسید احمد خان اور دوسرے علمی اکابر کی صحبت میسر آئی، جس نے ان کے ذوق کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ شبلی نعمانی کا ایک بڑا کارنامہ ندوۃ العلما کا قیام ہے۔ ان کی زندگی کا حاصل ان کی تصنیف سیرت النبی سمجھی جاتی ہے تاہم بدقسمتی سے ان کی زندگی میں اس معرکہ آرا کتاب کی فقط ایک جلد شائع ہوسکی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد یہ کام ان کے لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ شبلی نعمانی کی دیگر تصانیف میں شعر العجم، الفاروق، سیرت النعمان، موازنۂ انیس و ادبیر اور الغزالی کے نام سرفہرست ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی کا مزار اعظم گڑھ میں واقع ہے۔


حضرت کے یوم وفات کے موقع پر ان کے کچھ منتخب اشعار بطور خراج عقیدت احباب کی خدمت میں پیش ہیں


*انتخاب و پیشکش.....طارق اسلم*


*آپ جاتے تو ہیں اس بزم میں شبلیؔ لیکن* 

*حال دل دیکھیے اظہار نہ ہونے پائے* 

 

تسخیر چمن پر نازاں ہیں تزئین چمن تو کر نہ سکے 

تصنیف فسانہ کرتے ہیں کیوں آپ مجھے بہلانے کو 

 

 *جمع کر لیجئے غیروں کو مگر خوبئ بزم* 

*بس وہیں تک ہے کہ بازار نہ ہونے پائے*


 عجب کیا ہے جو نوخیزوں نے سب سے پہلے جانیں دیں 

کہ یہ بچے ہیں ان کو جلد سو جانے کی عادت ہے 


 *فراز دار پہ بھی میں نے تیرے گیت گائے ہیں*

*بتا اے زندگی تو لے گی کب تک امتحاں میرا* 


 میں روح عالم امکاں میں شرح عظمت یزداں 

ازل ہے میری بیداری ابد خواب گراں میرا 


 *دو قدم چل کر ترے وحشی کے ساتھ*

   *جادہ راہِ بیاباں رہ گیا.......!*


کچھ اکیلی نہیں میری قسمت

غم کو بھی ساتھ لگا لگائی ہے


*پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا*

*رخصت صبر تھی یا ترک شکیبائی تھا*


ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو

غم اٹھانے کا بھی باقی نہیں یارا ہم کو


*یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے*

*گل تر کو ہوس خار نہ ہونے پائے*


تیر قاتل کا یہ احساں رہ گیا

جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا


*تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں*

*واعظ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں*


اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشان چھوڑا نہ پھر کہیں کا

گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا