ہفتہ، 28 نومبر، 2020

نور جہاں ثروت

 بیباک صحافی۔ لیکچرر و منفرد و حساس لب ولہجے کی شاعرہ نور جہاں ثروتؔ کی پیدائش...28 نومبر

(طارق اسلم)

28 نومبر 1949 کو دہلی میں پیدا ہونے والی *نور جہاں ثروت* نے اپنے کیریئر کا آغاز بحیثیت لیکچرار جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے شروع کیا. بعد میں ڈاکٹر ذاکر حسین

کالج میں بھی لیکچرار شپ پر فائز رہیں- اسی کے ساتھ ساتھ آل انڈیا ریڈیو پر بحیثیت انٹرویور کے کام کرتی رہیں- 1980 ء سے انہوں نے صحافت میں بھی قسمت آزمائی کی اور روزنامہ قومی آواز اور روزنامہ انقلاب ممبئی میں خصوصی کالم لکھنا شروع کیا-

 ان کا انتقال 2010 میں ہوا.....


آج موصوفہ کے یوم ولادت پر ان کے کچھ منتخب اشعار احباب کی خدمت میں پیش ہیں...


*انتخاب و پیشکش....طارق اسلم*


*رنگ چہرے پہ گھلا ہو جیسے*

*آئینہ دیکھ رہا ہو جیسے*


*کون تنہائی کا احساس دلاتا ہے مجھے*

*یہ بھرا شہر بھی تنہا نظر آتا ہے مجھے*


*محسوس ہو رہا ہے کہ دنیا سمٹ گئی*

*میری پسند کتنے ہی خانوں میں بٹ گئی*


*پیاس جو بجھ نہ سکی اس کی نشانی ہوگی*

*ریت پر لکھی ہوئی میری کہانی ہوگی*


*نسبت ہی کسی سے ہے نہ رکھتے ہیں حوالے*

*ہاں ہم نے جلا ڈالے ہیں رشتوں کے قبالے*


*پھر کوئی اپنی وفا کا واسطہ دینے لگا*

*دور سے آواز مجھ کو حادثہ دینے لگا*


*یوں تو کہنے کو ہم عدو بھی نہیں*

*ہاں مگر اس سے گفتگو بھی نہیں*


*وہ ایک نظر میں مجھے پہچان گیا ہے*

*جو بیتی ہے دل پر مرے سب جان گیا ہے*


*ساتھ میرے اپنے سائے کے سوا کوئی نہ تھا*

*اجنبی تھے سب جہاں میں آشنا کوئی نہ تھا*


*‏یوں جگا دیتی ہے دل کی دھڑکن*

*اس کے قدموں کی صدا ہو جیسے*


*‏ہم نے وفا نبھائی بڑی تمکنت کے ساتھ*

*اپنے ہی بل پہ زندہ رہے عمر کٹ گئی*


*‏رہنے لگا دل اس کے تصور سے گریزاں*

*وحشی ہے مگر میرا کہا مان گیا ہے*