بیباک صحافی۔ لیکچرر و منفرد و حساس لب ولہجے کی شاعرہ نور جہاں ثروتؔ کی پیدائش...28 نومبر
(طارق اسلم)
28 نومبر 1949 کو دہلی میں پیدا ہونے والی *نور جہاں ثروت* نے اپنے کیریئر کا آغاز بحیثیت لیکچرار جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے شروع کیا. بعد میں ڈاکٹر ذاکر حسین
کالج میں بھی لیکچرار شپ پر فائز رہیں- اسی کے ساتھ ساتھ آل انڈیا ریڈیو پر بحیثیت انٹرویور کے کام کرتی رہیں- 1980 ء سے انہوں نے صحافت میں بھی قسمت آزمائی کی اور روزنامہ قومی آواز اور روزنامہ انقلاب ممبئی میں خصوصی کالم لکھنا شروع کیا-ان کا انتقال 2010 میں ہوا.....
آج موصوفہ کے یوم ولادت پر ان کے کچھ منتخب اشعار احباب کی خدمت میں پیش ہیں...
*انتخاب و پیشکش....طارق اسلم*
*رنگ چہرے پہ گھلا ہو جیسے*
*آئینہ دیکھ رہا ہو جیسے*
*کون تنہائی کا احساس دلاتا ہے مجھے*
*یہ بھرا شہر بھی تنہا نظر آتا ہے مجھے*
*محسوس ہو رہا ہے کہ دنیا سمٹ گئی*
*میری پسند کتنے ہی خانوں میں بٹ گئی*
*پیاس جو بجھ نہ سکی اس کی نشانی ہوگی*
*ریت پر لکھی ہوئی میری کہانی ہوگی*
*نسبت ہی کسی سے ہے نہ رکھتے ہیں حوالے*
*ہاں ہم نے جلا ڈالے ہیں رشتوں کے قبالے*
*پھر کوئی اپنی وفا کا واسطہ دینے لگا*
*دور سے آواز مجھ کو حادثہ دینے لگا*
*یوں تو کہنے کو ہم عدو بھی نہیں*
*ہاں مگر اس سے گفتگو بھی نہیں*
*وہ ایک نظر میں مجھے پہچان گیا ہے*
*جو بیتی ہے دل پر مرے سب جان گیا ہے*
*ساتھ میرے اپنے سائے کے سوا کوئی نہ تھا*
*اجنبی تھے سب جہاں میں آشنا کوئی نہ تھا*
*یوں جگا دیتی ہے دل کی دھڑکن*
*اس کے قدموں کی صدا ہو جیسے*
*ہم نے وفا نبھائی بڑی تمکنت کے ساتھ*
*اپنے ہی بل پہ زندہ رہے عمر کٹ گئی*
*رہنے لگا دل اس کے تصور سے گریزاں*
*وحشی ہے مگر میرا کہا مان گیا ہے*