جمعرات، 26 نومبر، 2020

انتظار (واقعہ نمبر 139)

(پروفیسر عبدالماجدانصاری )

میں ممبئی کے جعفر سلیمان ہاسٹل میں رہتا تھا۔ ایک ساتھی سے کسی بات پر بحث ہوگئی اور عام قائدے کے مطابق بات چیت بند ہوگئی۔

یہ 1986 کی بات ہے جب مجھے ہاسٹل چھوڑنا تھا۔ ایک دن میں اس روٹھے اور

ناراض ساتھی کے روم میں اس سے ملنے چلا گیا۔ سلام کیا اور اپنے کیے کی معافی مانگ لی۔

وہ والہانہ مجھ سے لپٹ گیا اور ایسے تپاک سے ملا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔

اس دن مجھے یہ احساس ہوا کہ آپسی نااتفاقی کے بیشتر معاملات میں فریقین اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ انہیں ذرا سی اہمیت دی جائے تو وہ تعلقات کو استوار کرلیں۔

ایسے معاملات میں کاش کوئی ایک فریق پہل کردے تو کتنے ہی بگڑے ہوئے کشیدہ معاملات دوبارہ بحال ہو جائیں۔

لیکن اکثر اس ایک پل کے انتظار میں برسوں یا صدیاں بیت جاتی ہے اور کوئی فریق بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔

بس چھوٹی سی پہل یا سلام کی ضرورت ہوتی ہے۔

کاش ہم سمجھیں ۔

عبدالماجد انصاری، وائس پرنسپل، مہاراشٹر کالج