*⚪ تعارف:: شعرائے مالیگاؤں ⚪*
*پیشکش نمبر :::::: 4 :::::::*
..................................................................
*پیشکش نمبر :::::: 4 :::::::*
..................................................................
*"اپنــــــــــی مٹّـــــــــی ســــــــونا ھـــــــے"*
..................................................................
*ادیؔب مالیـــــــــگانوی*
1909ء میری پیدائش کا سال ہے۔ اَن پڑھ والدین انکے اپنے بچوں کی ذہنی و فطری صلاحیتوں کو کس درجہ اجاگر کرسکتے
ہیں اسکا تذکرہ فضول ھے۔ پھر بھی مجھکو اپنی علمی تشنگی بجھانے میں کافی مدد ملتی رہی۔
اسکول کی تعلیم نیک نامی اور باقاعدگی کے ساتھ جاری تھی۔ کہ ملک میں تحریکِ خلافت نے زور پکڑا۔ اور مقامی جوش و خروش سے متاثر ہو کر میں نے عدم تعاؤن کے ماتحت اسکول ترک کردیا۔ کئی سال کی پراگندگی کے بعد مجبورًا 26 ء میں دوبارہ اسکول میں داخل ہوکر ابتدائی تعلیم ختم کی۔
جناب ہنؔر مالیگانوی کی وساطت سے پہلے حضرتِ تجمؔل جلالپوری سے اصلاح لیتا رہا۔ لیکن رنگِ قدیم میرے بس کا نہ تھا۔ اس بناء پر مولانا قدیؔر صاحب ایولوی کے دامنِ فیض سے وابستہ ہوگیا۔ قدیؔر صاحب کی محبت اور توجہ نے چند ہی دنوں میں اس قابل بنا دیا کہ میں پورے اعتماد کے ساتھ اپنے ادبی ذوق کو جاری رکھ سکوں۔ اپنی علمی کم مائیگی کے باوجود محض استقلال اور ادبی جنون کی بنا پر مجھے جو کامیابی نصیب ہوئی اسکو اپنے مرحوم استاد رحمتہ اللہ علیہ کا روحانی فیض سمجھتا ہوں۔
27 ء میں شادی ہوئی اور اسی کے ساتھ ملازمت کا آغاز ہوا۔ پہلی نظم مولانا ظفر علی کی نظم کو دیکھ کر لکھی جو اسی ہفتہ اخبار میں چھَپ گئی۔ یہ گویا سمند ناز پر اک اور تازیانہ تھا۔ 29 ء میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس منعقدہ پونہ کی جانب سے بہترین نظم پر ایک طلائی تمغہ کا اعلان ہوا۔ ابتدائے شاعری ہی سہی مجھ کو ایسے چند علم دوست اور احباب ثروت افراد کی سرپرستی و معاونت حاصل ہوگئی۔ جس کی بدولت اپنے نمود و نمائش کی تکمیل کے زیادہ مواقع حاصل رہے۔
میں نے اپنے ذوق کی بناء پر زبان اور ادب کی خدمت کی ہو یا نہیں لیکن یہ واقعہ ہے کہ میرے لئے بہت سے دوست نما شاگرد یا شاگرد نما دوست آسمانِ سخن پر آفتاب و ماہتاب بن کر جگمگا رہے ہیں۔ مجھے اس سے زیادہ خوشی اور فخر کیا چاہیئے۔
ادیؔب 12 جولائی 1945ء
* غـــــــــــــزل *
نگاہِ شوق کے زیرِ اثر ہونا ہی پڑتا ہے
وہ چاہیں یا نہ چاہیں جلوہ گَر ہونا ہی پڑتا ہے
وہ چاہیں یا نہ چاہیں جلوہ گَر ہونا ہی پڑتا ہے
بہ ہر عالم محبت کو سپر ہونا ہی پڑتا ہے
جدھر اٹھتی ہیں وہ نظریں اُدھر ہونا ہی پڑتا ہے
جدھر اٹھتی ہیں وہ نظریں اُدھر ہونا ہی پڑتا ہے
جواب انکی عتاب آلودہ نظروں کا کہاں ممکن
نظامِ دہرکو زیر و زبر ہونا ہی پڑتا ہے
نظامِ دہرکو زیر و زبر ہونا ہی پڑتا ہے
جہاں گُم ہوچکے ہیں اہلِ دل کے کارواں لاکھوں
اسی منزل پہ مجبورِ سفر ہونا ہی پڑتا ہے
اسی منزل پہ مجبورِ سفر ہونا ہی پڑتا ہے
کبھی وہ خود اُٹھا دیتے ہیں ہر پردہ تجلّی کا
کبھی دل کو بھی سر تا پا نظر ہونا ہی پڑتا ہے
کبھی دل کو بھی سر تا پا نظر ہونا ہی پڑتا ہے
حقیقت بن کے رہ جاتا ہے دورِ بیکسی ورنہ
بظاہر ہر شبِ غم کو سحر ہونا ہی پڑتا ہے
بظاہر ہر شبِ غم کو سحر ہونا ہی پڑتا ہے
غرور و سرکشی انسان کی فطرت سہی لیکن
جبینوں کو رہینِ سنگ دَر ہونا ہی پڑتا ہے
جبینوں کو رہینِ سنگ دَر ہونا ہی پڑتا ہے
کہاں بے کیف معصومی ، کہاں لطفِ پشیمانی
فرشتہ بننے والوں کو بشر ہونا ہی پڑتا ہے
فرشتہ بننے والوں کو بشر ہونا ہی پڑتا ہے
ادیؔب اک دورِ نازک یوں بھی آتا ہے گلستاں میں
کہ پھولوں کو بھی ہم رنگِ شرر ہونا ہی پڑتا ہے
کہ پھولوں کو بھی ہم رنگِ شرر ہونا ہی پڑتا ہے
_________*★ :: پیشکش:: ★*_________
*بزمِ تنویرِ ادب وہاٹس ایپ گروپ*
*بزمِ تنویرِ ادب وہاٹس ایپ گروپ*