بدھ، 11 اکتوبر، 2017

غزل

احباب کی فرمائش پر ایک تازہ غزل

*اب کے بادل کتنے کالے کالے ہیں*
*لگتا ہے کہ خوب برسنے والے ہیں*
*بوڑھی امّاں جانے کیا کیا سوچ رہی*
*گھر سے باہر دور پہ گھر کے جیالے ہیں*
*فکر کے مارے ان آنکھوں میں نیند کہاں*
*جن کے مکاں بس کچّی مٹّی والے ہیں*
*دھرتی کی بھی پیاس بجھے گی عرصے کی*
*تر ہونے کو بس ہونٹوں کے پیالے ہیں*
*چلو شکیل اب پارٹی چھوڑو گھر کی طرف*
*بادل اب کی خوب برسنے والے ہیں*
( *شکیل حنیف*)Ⓜ♓