26 جولائی 2022

ہاضمہ ٹیکس

 


*ہاضمہ ٹیکس*

*آج کی بات 1454*

✍🏻 *شکیل حنیف*

گزشتہ دنوں صبح سویرے میری بچی کو اسکول پہنچانے کیلئے نکلا۔ جب گھر سے نکلا تھا تو بھرپور ناشتہ کرلیا تھا لیکن واپس ہوا تو عجیب بات ہوئی کہ ایک بار پھر سے بھوک کا احساس ہونے لگا اور ایسا محسوس ہوا جیسے میرا پیٹ  نہیں سری لنکا ہے جہاں جوتم پیزار جاری ہے۔ میں نے اس بات پر زیادہ دھیان نہیں دیا۔ لیکن جب مسلسل کئی روز تک ایسا ہوتا رہا تو میں نے غور کرنا شروع کیا۔ یکا یک خیال آیا کہ ہو نا ہو یہ ہم سب کے پیارے بھیا کی کرامت ہو اور ان کے محلے سے گزرنے کا اثر ہو لیکن دوسرے ہی لمحے یہ خیال بھی آیا کہ بھیا تو مڈڈے پر بھی ہوتے ہیں اور مڈڈے سے گزرتے وقت بلکہ وہاں گھنٹوں بیٹھنے کے بعد بھی ایسی بھوک کبھی نہیں لگی۔ الغرض کئی روز تک جب یہ معاملہ رہا تو آج صبح راستے میں میں نے اس بات کا ذکر اپنی بچی سے کیا۔ بچی نے فورا جواب دیا کہ *ابو آپ کو معلوم ہے نا یہ کونسا روڈ ہے ؟* میں نے کہا ہاں مولانا ابوالکلام آزاد روڈ۔ اس نے پھر پوچھا۔ *اور روڈ پر سینکڑوں کی تعداد میں یہ کیا دکھ رہے ہیں ؟* 

فورا میرا دھیان گڑھوں کی طرف گیا اور بچی کو چپ کراتے ہوئے کہا کہ بیٹا جانے دو ہم اس جادوئی روڈ کا ذکر کسی سے نہیں کریں گے ورنہ روڈ کی اتنی بہترین خوبی کا پتہ چلتے ہی کہیں *ہاضمہ ٹیکس* نہ لگا دیا جائے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں