جیسا جنون سرپھرے بلوائیوں میں تھا
ویسا ہی صبر امن کے شیدائیوں میں تھا
جس کو میں ڈھونڈتا رہا ہر پل ادھر ادھر
وہ تو مرے وجود کی گہرائیوں میں تھا
بعدِ وصال دل سے یہ اٹھتی رہی صدا
کتنا سکون ہجر کی تنہائیوں میں تھا
جو لطف جو سکون ہے پیپل کی چھاؤں میں
ویسا مزہ نہ شہر کی رعنائیوں میں تھا
سورج بھی دیکھ کر اسے چپ چاپ ڈھل گیا
کچھ ایسا درد شام کی پرچھائیوں میں تھا
جس کی شکیل سب کو ہی ہوتی ہے آرزو
ویسا ہی پیار میرے سبھی بھائیوں میں تھا
(شکیل حنیف)
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
(مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں