طاری بڑا عجیب سا ہیجان کر دیا
خوفِ وبا نے دیس کو سنسان کر دیا
شیطان چاہتا تھا کہ ایمان لوٹ لے
مضبوط رب نے اور بھی ایقان کر دیا
جنگل سے ایک شیر کے جانے کی دیر تھی
کتوں نے سارے دشت کو ہلکان کر دیا
جس باغباں پہ ناز تھا ہر پھول کو بہت
اس نے ہی سارے باغ کو ویران کر دیا
اپنی زباں سے اس نے تو کچھ بھی نہیں کہا
اپنے ہنر سے سب کو ہی حیران کر دیا
تجھ پر شکیل رب کا یہ احسان ہی تو ہے
جو مشکلیں تھیں ان کو بھی آسان کر دیا
(شکیل حنیف)
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
( مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں