فراز اپنے عہد کے سچے فنکار تھے حق گوئی اور بے باکی ان کی تخلیقی فطرت کا بنیادی عنصر تھی انہوں نے حکومت وقت اور اسٹیبلشمینٹ کی بدعنوانیوں کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی ۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے کی پاداش میں انہیں گرفتار بھی کیا گیا ۔ وہ چھ سال تک کناڈا اور یورپ میں جلاوطنی کا عذاب سہتے رہے ۔
فراز کی شاعری جن دو بنیادی جذبوں ، رویوں اور تیوروں سے مل کرتیار ہوتی ہے وہ احتجاج ، مزاحمت اور رومان ہیں ۔ ان کی شاعری سے ایک رومانی ، ایک نوکلاسیکی ، ایک جدید اور ایک باغی شاعر کی تصویر بنتی ہے ۔ انہوں نے عشق ، محبت اور محبوب سے جڑے ہوئے ایسے باریک احساسات اور جذبوں کو شاعری کی زبان دی ہے جو ان سے پہلے تک ان چھوے تھے ۔
فرازکی شخصیت سے جڑی ہوئی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ اپنے عہد کے سب سے مقبول ترین شاعروں میں سے تھے ۔ ہندوپاک کے مشاعروں میں جتنی محبتوں اور دلچسپی کے ساتھ فراز کو سنا گیا ہے اتنا شاید ہی کسی اور شاعر کو سنا گیا ہو ۔ فراز کی پزیرائی ہر سطح پر ہوئی انہیں بہت سے اعزازات وانعامات سے بھی نوازا گیا ۔ ان کو ملنے والے چند اعزازات کے نام یہ ہیں ۔ آدم جی ایوارڈ، اباسین ایوارڈ، فراق گورکھپوری ایوارڈ (انڈیا)، اکیڈمی آف اردو لیٹریچر ایوارڈ (کینیڈا)، ٹاٹا ایوارڈجمشید نگر (انڈیا)، اکادمی ادبیات پاکستان کا ’کمال فن‘ ایوارڈ، ادب میں نمایاں کارکردگی پر ہلال امتیاز ۔
شعری مجموعے
جاناں جاناں ، خواب گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کرو ، درد آشوب ،تنہا تنہا ، نایافت ،نابینا شہر میں آئینہ ، بے آواز گلی کوچوں میں ، پس انداز موسم ، شب خون ، بودلک ، یہ سب میری آوازیں ہیں ، میرے خواب ریزہ ریزہ ،اے عشق جفاپیشہ ۔
فراز صاحب کے منتخب اشعار احباب کی خدمت میں.....
*انتخاب و پیشکش....طارق اسلم*
*بھری بہار میں اک شاخ پر کھلا ہے گلاب*
*کہ جیسے تو نے ہتھیلی پہ گال رکھا ہے*
*اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم*
*یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم*
چلے تھے یار بڑے زعم میں ہوا کی طرح
پلٹ کے دیکھا تو بیٹھے ہیں نقش پا کی طرح
*ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود*
*آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا*
ہجوم ایسا کہ راہیں نظر نہیں آتیں
نصیب ایسا کہ اب تک تو قافلہ نہ ہوا
*اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب*
*اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم*
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
*کس کو بکنا تھا مگر خوش ہیں کہ اس حیلے سے*
*ہوگئیں اپنے خریدار سے باتیں کیا کیا*
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
*کچھ اس طرح سے گزاری ہے زندگی جیسے*
*تمام عمر کسی دوسرے کے گھر میں رہا*
کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے
وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا
*میں بھی پلکوں پہ سجا لوں گا لہو کی بوندیں*
*تم بھی پا بستہ زنجیر حنا ہو جانا*
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
*میں رات ٹوٹ کے رویا تو چین سے سویا*
*کہ دل کا زہر مری چشم تر سے نکلا تھا*
میرؔ کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فرازؔ
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا
*تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ*
*لوگ کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ*
*تیرے قامت سے بھی لپٹی ہے امر بیل کوئی*
*میری چاہت کو بھی دنیا کی نظر کھا گئی دوست*
تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست
تو مری پہلی محبت تھی مری آخری دوست
*وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے*
*اسے خبر ہی نہیں میں نہیں رہا اس کا*
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں