05 مئی 2019

ظفر گورکھپوری Zafar Gorakhpuri

آج 5 مئی....منفرد لب و لہجہ کے شاعر ظفر گورکھپوری صاحب کے یوم ولادت پر ان کے منتخب اشعار احباب کی خدمت میں پیش ہیں.


انتخاب و پیشکش...طارق اسلم


آنکھیں یوں ہی بھیگ گئیں کیا دیکھ رہے ہو آنکھوں میں
بیٹھو صاحب کہو سنو کچھ ملے ہو کتنے سال کے بعد

*آسماں ایسا بھی کیا خطرہ
تھا دل کی آگ سے*
*اتنی بارش ایک شعلے کو بجھانے کے لیے*

ابھی زندہ ہیں ہم پر ختم کر لے امتحاں سارے
ہمارے بعد کوئی امتحاں کوئی نہیں دے گا

*اپنے اطوار میں کتنا بڑا شاطر ہوگا*
*زندگی تجھ سے کبھی جس نے شکایت نہیں کی*

چھت ٹپکتی تھی اگرچہ پھر بھی آ جاتی تھی نیند
میں نئے گھر میں بہت رویا پرانے کے لیے

*دیکھیں قریب سے بھی تو اچھا دکھائی دے*
*اک آدمی تو شہر میں ایسا دکھائی دے*

فلک نے بھی نہ ٹھکانا کہیں دیا ہم کو
مکاں کی نیو زمیں سے ہٹا کے رکھی تھی

*کیسی شب ہے ایک اک کروٹ پہ کٹ جاتا ہے جسم*
*میرے بستر میں یہ تلواریں کہاں سے آ گئیں*

خط لکھ کے کبھی اور کبھی خط کو جلا کر
تنہائی کو رنگین بنا کیوں نہیں لیتے

*کتنی آسانی سے مشہور کیا ہے خود کو*
*میں نے اپنے سے بڑے شخص کو گالی دے کر*

کوئی آنکھوں کے شعلے پونچھنے والا نہیں ہوگا
ظفرؔ صاحب یہ گیلی آستیں ہی کام آئے گی

*میں ظفرؔ تا زندگی بکتا رہا پردیس میں*
*اپنی گھر والی کو اک کنگن دلانے کے لیے*

میری اک چھوٹی سی کوشش تجھ کو پانے کے لیے
بن گئی ہے مسئلہ سارے زمانے کے لیے

*نہیں معلوم آخر کس نے کس کو تھام رکھا ہے*
*وہ مجھ میں گم ہے اور میرے در و دیوار گم اس میں*

سمندر لے گیا ہم سے وہ ساری سیپیاں واپس
جنہیں ہم جمع کر کے اک خزانہ کرنے والے تھے

*شاید اب تک مجھ میں کوئی گھونسلہ آباد ہے*
*گھر میں یہ چڑیوں کی چہکاریں کہاں سے آ گئیں*

شجر کے قتل میں اس کا بھی ہاتھ ہے شاید
بتا رہا ہے یہ باد صبا کا چپ رہنا

*تنہائی کو گھر سے رخصت کر تو دو*
*سوچو کس کے گھر جائے گی تنہائی*

اسے ٹھہرا سکو اتنی بھی تو وسعت نہیں گھر میں
یہ سب کچھ جان کر آوارگی سے چاہتے کیا ہو

*ذہنوں کی کہیں جنگ کہیں ذات کا ٹکراؤ*
*ان سب کا سبب ایک مفادات کا ٹکراؤ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں