آج 5 مئی....منفرد لب و لہجہ کے شاعر ظفر گورکھپوری صاحب کے یوم ولادت پر ان کے منتخب اشعار احباب کی خدمت میں پیش ہیں.
انتخاب و پیشکش...طارق اسلم
آنکھیں یوں ہی بھیگ گئیں کیا دیکھ رہے ہو آنکھوں میں
بیٹھو صاحب کہو سنو کچھ ملے ہو کتنے سال کے بعد
*اتنی بارش ایک شعلے کو بجھانے کے لیے*
ابھی زندہ ہیں ہم پر ختم کر لے امتحاں سارے
ہمارے بعد کوئی امتحاں کوئی نہیں دے گا
*اپنے اطوار میں کتنا بڑا شاطر ہوگا*
*زندگی تجھ سے کبھی جس نے شکایت نہیں کی*
چھت ٹپکتی تھی اگرچہ پھر بھی آ جاتی تھی نیند
میں نئے گھر میں بہت رویا پرانے کے لیے
*دیکھیں قریب سے بھی تو اچھا دکھائی دے*
*اک آدمی تو شہر میں ایسا دکھائی دے*
فلک نے بھی نہ ٹھکانا کہیں دیا ہم کو
مکاں کی نیو زمیں سے ہٹا کے رکھی تھی
*کیسی شب ہے ایک اک کروٹ پہ کٹ جاتا ہے جسم*
*میرے بستر میں یہ تلواریں کہاں سے آ گئیں*
خط لکھ کے کبھی اور کبھی خط کو جلا کر
تنہائی کو رنگین بنا کیوں نہیں لیتے
*کتنی آسانی سے مشہور کیا ہے خود کو*
*میں نے اپنے سے بڑے شخص کو گالی دے کر*
کوئی آنکھوں کے شعلے پونچھنے والا نہیں ہوگا
ظفرؔ صاحب یہ گیلی آستیں ہی کام آئے گی
*میں ظفرؔ تا زندگی بکتا رہا پردیس میں*
*اپنی گھر والی کو اک کنگن دلانے کے لیے*
میری اک چھوٹی سی کوشش تجھ کو پانے کے لیے
بن گئی ہے مسئلہ سارے زمانے کے لیے
*نہیں معلوم آخر کس نے کس کو تھام رکھا ہے*
*وہ مجھ میں گم ہے اور میرے در و دیوار گم اس میں*
سمندر لے گیا ہم سے وہ ساری سیپیاں واپس
جنہیں ہم جمع کر کے اک خزانہ کرنے والے تھے
*شاید اب تک مجھ میں کوئی گھونسلہ آباد ہے*
*گھر میں یہ چڑیوں کی چہکاریں کہاں سے آ گئیں*
شجر کے قتل میں اس کا بھی ہاتھ ہے شاید
بتا رہا ہے یہ باد صبا کا چپ رہنا
*تنہائی کو گھر سے رخصت کر تو دو*
*سوچو کس کے گھر جائے گی تنہائی*
اسے ٹھہرا سکو اتنی بھی تو وسعت نہیں گھر میں
یہ سب کچھ جان کر آوارگی سے چاہتے کیا ہو
*ذہنوں کی کہیں جنگ کہیں ذات کا ٹکراؤ*
*ان سب کا سبب ایک مفادات کا ٹکراؤ*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں