آج 23 مارچ...غزلوں اور نظموں کے لئے مشہور نذیربنارسی صاحب کا یوم وفات
(طارق اسلم) نذیر بنارسی کا شمار نظم اور غزل کے معروف ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ وہ 25 نومبر 1909 کو بنارس میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد بنارس کے مشہور طبیب تھے ۔ نذیر بھی طبابت کے اس آبائی پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ شاعری میں
نذیر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی نظموں کے موضوعات اپنے آس پاس بکھری ہوئی زندگی کے حقیقی رنگوں سے چنے۔ انہوں نے اپنے وقت کی اہم سیاسی، سماجی ،علمی اور ادبی شخصیات پر طویل طویل نظمیں بھی لکھیں۔ نذیر کے شعری مجموعے ’گنگ وجمن‘ راشٹر کی امانت راشٹر کے حوالے‘ ’جواہر سے لال تک‘ ’ غلامی سے آزادی تک‘ اور ’کتاب غزل‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ نذیر کی شاعری ایک طور سے ان کے عہد کی سیاسی ، سماجی اور تہذیبی اتھل پتھل کا تخلیقی دستاویز ہے۔ 23 مارچ 1996 کو بنارس میں انتقال ہوا۔
نذیر بنارسی صاحب کے یوم وفات پر ان کے کچھ مخصوص و منتخب اشعار احباب کی خدمت میں پیش ہیں-
*انتخاب و پیشکش....طارق اسلم*
آس ہی سے دل میں پیدا زندگی ہونے لگی
شمع جلنے بھی نہ پائی روشنی ہونے لگی
*اندھیرا مانگنے آیا تھا روشنی کی بھیک*
*ہم اپنا گھر نہ جلاتے تو اور کیا کرتے*
ایک جھونکا اس طرح زنجیر در کھڑکا گیا
میں یہ سمجھا بھولنے والے کو میں یاد آ گیا
*ایک دیوانے کو جو آئے ہیں سمجھانے کئی*
*پہلے میں دیوانہ تھا اور اب ہیں دیوانے کئی*
بد گمانی کو بڑھا کر تم نے یہ کیا کر دیا
خود بھی تنہا ہو گئے مجھ کو بھی تنہا کر دیا
*جی میں آتا ہے کہ دیں پردے سے پردے کا جواب*
*ہم سے وہ پردہ کریں دنیا سے ہم پردا کریں*
دل کی اجڑی ہوئی حالت پہ نہ جائے کوئی
شہر آباد ہوئے ہیں اسی ویرانے سے
*دوسروں سے کب تلک ہم پیاس کا شکوہ کریں*
*لاؤ تیشہ ایک دریا دوسرا پیدا کریں.......!*
راستہ روکے ہوئے کب سے کھڑی ہے دنیا
نہ ادھر ہوتی ہے ظالم نہ ادھر ہوتی ہے
*عمر بھر کی بات بگڑی اک ذرا سی بات میں*
*ایک لمحہ زندگی بھر کی کمائی کھا گیا....!*
مری بے زبان آنکھوں سے گرے ہیں چند قطرے
وہ سمجھ سکیں تو آنسو نہ سمجھ سکیں تو پانی
*وہ آئنہ ہوں جو کبھی کمرے میں سجا تھا*
*اب گر کے جو ٹوٹا ہوں تو رستے میں پڑا ہوں*
یہ عنایتیں غضب کی یہ بلا کی مہربانی
مری خیریت بھی پوچھی کسی اور کی زبانی
*یہ کریں اور وہ کریں ایسا کریں ویسا کریں*
*زندگی دو دن کی ہے دو دن میں ہم کیا کیا کریں*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں