12 جنوری 2022

صوفی صاحب

 صوفی غلام رسول قادری صاحب پر لکھی جانے والی کتاب کیلئے ایک مضمون


کچھ لوگوں کی دوستی و تعلقات اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ وہ زندگی تو زندگی موت کے وقت بھی ایسی تاریخ رقم کرجاتے ہیں جو لوگوں کو عرصے تک یاد رہتی ہے۔ ایسی ہی دوستی اور مضبوط رشتے والد محترم حاجی حنیف صابر اور ان کے بہترین ساتھی صوفی غلام رسول قادری صاحب کے درمیان تھے۔ صوفی صاحب سے والد صاحب کے رشتے کو بیان کرنے کیلئے اتنا کافی ہے کہ ان کے موبائل کی مخصوص بٹنوں (اسپیڈ ڈائل) میں میرے اہل خانہ اور نہال صاحب کے اہل خانہ کے نمبرات کے علاوہ جو چند نمبر انہوں نے رکھوائے تھے ان میں ایک صوفی صاحب کا بھی تھا۔ دونوں کا انتقال بھی چند دن کے وقفے سے ہوا۔ جمعرات تک والد صاحب بالکل ہشاش بشاش تھے۔ جمعہ کی صبح جب میں اپنے روم سے باہر آیا تو دیکھا والد صاحب اب تک لیٹے ہوئے ہیں۔ ان سے حال پوچھا تو کہنے لگے صوفی صاحب کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔ 
پہلے عبدالباری صاحب اور پھر صوفی صاحب کی جدائی کا ان پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ وہ پھر سنبھل نہ سکے۔ اس کے بعد ان کی طبیعت خراب رہنے لگی اور چند روز میں ہی انتقال کرگئے۔ 
میرے والد صاحب اور صوفی صاحب نہ صرف ہم خیال تھے بلکہ دونوں میں کئی خوبیاں مشترک تھیں۔ دین وسنیت کا معاملہ ہو یا کوئی اور سماجی و سیاسی مسئلہ دونوں ہر معاملے کے حل و تدارک کیلئے پیش پیش رہا کرتے تھے۔ ایک ایسے دور میں جب اکثر لوگ دوسرے مسلک کے علماء سے رابطہ رکھنا تو دور بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے یہ دونوں افراد اپنے مسلک پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کیلئے ہمیشہ کوشش کرتے رہے۔ اس کی ایک جیتی جاگتی مثال کل جماعتی تنظیم ہے۔ مالیگاؤں دھماکوں کے بعد جب ملت میں انتشار کی کوششیں ہورہی تھیں اور شہر میں عجیب سی اضطراری کیفیت تھی۔ ایسے عالم میں صوفی صاحب ۔ حاجی حنیف صابر صاحب ۔ مولانا عبدالحمید ازہری صاحب ۔ مولانا عبدالباری صاحب ۔ شکیل فیضی صاحب وغیرہ مخلصین نے مختلف الخیال افراد پر مشتمل شہر کے تمام مسالک کے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کل جماعتی تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ اس تنظیم کے قیام نے انتشار ملت کی تمام سازشوں کو پارہ پارہ کردیا اور یہ ایک ایسی تنظیم بن کر ابھری جو صرف شہر ہی نہیں بلکہ ملک کیلئے ایک مثال بن گئی۔ اس تنظیم کے بانیان خلوص و بے نیازی کے پیکر تھے۔ ریاکاری اور موقع پرستی ان احباب کو چھوکر بھی نہیں گئی تھی۔ یہی اس تنظیم کی کامیابی کا راز تھا۔ والد صاحب کی حیات و خدمات کا تفصیلی ذکر والد صاحب کی سوانح حیات میں کررہا ہوں۔ اس مضمون میں صوفی صاحب کے بارے میں چند باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ 
صوفی صاحب ایک بیباک مقرر تھے۔ ان کو سننے کا موقع تو کم ملا لیکن جن جلسوں میں بھی صوفی صاحب کو سنا۔ سب سے بہترین تقریر ان کی ہی لگی۔ ان کی تقریر کا ہر لفظ میرے دل کی آواز محسوس ہوتی تھی۔ جوش اور ہوش کا ایسا حسین امتزاج بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ صوفی صاحب کے تعلقات اعلی آفیسران سے بھی تھے لیکن انہوں نے کبھی اس کا غلط فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ شہریان کو ہی اس کا فیض پہنچایا۔ آپ ہر ایک کے مسائل کیلئے حل کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ 
معصوم شاہ کٹی کی تعمیر و توسیع میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔ معصوم شاہ کٹی پر آپ کی زیرقیادت کئی اہم پروگرام منعقد ہوتے رہے ہیں۔ گرنا اور موسم ندیوں کے سنگم پر عیدگاہ کیلئے بھی آپ نے کافی کوششیں کیں۔ اولیائے کرام سے آپ کو قلبی لگاؤ تھا۔ ہر سال آپ کی سرپریتی میں عرس بھی منعقد ہوتا تھا۔ صوفی صاحب بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے جن کا ذکر اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔ ایک جملے میں کہوں تو صوفی صاحب جیسی شخصیات برسوں میں پیدا ہوتی ہیں۔

✍🏻 شکیل حنیف صابر
8087003917

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں