کس نے لکھّی ہے کہانی ظلم کی ایجاد کی
نسلِ آدم کاٹتی ہے فصل آدم زاد کی
جو مرا کچھ بھی نہ تھا اس نے مری امداد کی
اس جگہ سے کچھ نہ پایا جس جگہ فریاد کی
ہم نے دیکھا ہی نہیں چہرہ کبھی تعبیر کا
خواب کے پیچھے ہی ساری زندگی برباد کی
ہے مری قسمت میں جیسے بے بسی شداد کی
کام کر لیکن تُو دنیا سے توقع مت لگا
وہ اندھیرے میں ہے جس نے روشنی ایجاد کی
چاہتا تھا وہ غلام آزاد کرنے کا ثواب
ایک تتلی اس نے پکڑی اور پھر آزاد کی
جو وفا ہم کر نہ پائے ایک دوجے سے کبھی
میں نے اس کے بعد کی اور اس نے میرے بعد کی
انگلیوں پر ناچتی ہے ایک لڑکی عمر بھر
باپ کی، بھائی کی، پھر شوہر کی،پھر اولاد کی
وہ بھی آخر آگئی اک دن جہاں کی آنکھ میں
سب سے ہٹ کر دل نے جو دنیا نئی آباد کی
🖋فرحان دِل ـ مالیگاؤں ـ
📞 9226169933
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں