06 اپریل 2019

Jigar Muradabadi جگر مرادآبادی

آج 6 اپریل...شہنشاہ تغزل جگرمرادآبادی صاحب کا یوم ولادت

(طارق اسلم)  نام علی سکندر تخلص جگر۔ ولادت ۶؍اپریل ۱۸۹۰ء مرادآباد ۔ قرآن پاک ، فارسی اور اردو کی تعلیم اس زمانے کے دستور کے مطابق گھر پر ہوئی۔ ان کے والد علی نظر شاعر تھے۔ جگر کے خاندان کے دوسرے افراد بھی شاعر تھے،اس طرح جگر کو شاعری ورثے میں ملی۔چناں چہ جگر کی شعر گوئی کا آغاز اس وقت
ہوا جب وہ ۱۴ برس کے تھے۔ ابتدا میں انھوں نے حیات بخش رسا کو کلام دکھایا، پھر داغ سے رجوع کیا اور کچھ عرصہ امیر اللہ تسلیم سے بھی اصلاح لی۔ جگر صاحب کی زندگی کا بڑا حصہ مختلف اضلاع میں گزرا۔ ان کا پیشہ چشموں کی تجارت تھا۔ اصغر گونڈوی کی صحبت نے جگر کی شاعری کو بہت جلا بخشی۔ جگر مشاعروں کے بہت کامیاب شاعر تھے ۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔بحیثیت انسان وہ نہایت شریف واقع ہوئے تھے۔ بھارتی حکومت نے انھیں’’پدما بھوشن‘‘ خطاب دیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے جگر کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ان کے آخری مجموعہ کلام’’آتش گل‘‘ پر ان کو ساہتیہ اکیڈمی سے انھیں پانچ ہزار روپیہ کا انعام ملا۔ اور دو سو روپیہ ماہ نامہ وظیفہ مقرر ہوا۔ ’آتش گل‘ کے علاوہ ’’داغ جگر‘‘ اور ’’شعلۂ طور‘‘ ان کی شاعری کے مجموعے ہیں۔
شراب ترک کرنے کے بعد ان کی صحت بہت خراب رہنے لگی تھی۔ وہ مستقل طور پر گونڈہ میں قیام پذیر ہوگئے تھے۔ ۹؍ستمبر ۱۹۶۰ء کو تقریباً صبح ۶بجے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:315
جگر صاحب کے یوم ولادت پر ان کے منتخب اشعار احباب کی خدمت میں پیش ہیں گو کہ جگر صاحب کے شاندار تغزل سے بھرپور اشعار کی تعداد اتنی ہے کہ ان کا احاطہ کرتے ہوئے صفحات کم پڑ جائیں....

*انتخاب و پیشکش....طارق اسلم*

ایسا کہاں بہار میں رنگینیوں کا جوش
شامل کسی کا خون تمنا ضرور تھا

*بگڑا ہوا ہے رنگ جہان خراب کا*
*بھر لوں نظر میں حسن کسی کے شباب کا*

چشم پر نم زلف آشفتہ نگاہیں بے قرار
اس پشیمانی کے صدقہ میں پشیماں ہو گیا

*ہائے ری مجبوریاں ترک محبت کے لیے*
*مجھ کوسمجھاتے ہیں وہ اور ان کوسمجھاتا ہوں میں*

*لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا*
*جس دل کو تم نے دیکھ لیا دل بنا دیا*

حسن کو کیا دشمنی ہے عشق کو کیا بیر ہے
اپنے ہی قدموں کی خود ہی ٹھوکریں کھاتا ہوں میں

*عشق جب تک نہ کر چکے رسوا*
*آدمی کام کا نہیں ہوتا......!*

جان ہی دے دی جگرؔ نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا

*جس دل کو تم نے لطف سے اپنا بنا لیا*
*اس دل میں اک چھپا ہوا نشتر ضرور تھا*

لے کے خط ان کا کیا ضبط بہت کچھ لیکن
تھرتھراتے ہوئے ہاتھوں نے بھرم کھول دیا

*میں جہاں ہوں ترے خیال میں ہوں*
*تو جہاں ہے مری نگاہ میں ہے*

سب کو مارا جگرؔ کے شعروں نے
اور جگرؔ کو شراب نے مارا

*تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں*
*ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا*

آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر
ایک تنہا آدمیت ہی نہیں

*ہائے یہ حسن تصور کا فریب رنگ و بو*
*میں یہ سمجھا جیسے وہ جان بہار آ ہی گیا*

ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا
مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا

*ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگ محفل*
*کسے دیکھ کر آپ شرمایئے گا......!*

*اتنے حجابوں پر تو یہ عالم ہے حسن کا*
*کیا حال ہو جو دیکھ لیں پردہ اٹھا کے ہم*

جب ملی آنکھ ہوش کھو بیٹھے
کتنے حاضر جواب ہیں ہم لوگ

*کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر*
*میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مرا حق ہے فصل بہار پر*

کدھر سے برق چمکتی ہے دیکھیں اے واعظ
میں اپنا جام اٹھاتا ہوں تو کتاب اٹھا

*کچھ کھٹکتا تو ہے پہلو میں مرے رہ رہ کر*
*اب خدا جانے تری یاد ہے یا دل میرا*

جب ملی آنکھ ہوش کھو بیٹھے
کتنے حاضر جواب ہیں ہم لوگ

*ہائے رے مجبوریاں محرومیاں ناکامیاں*
*عشق آخر عشق ہے تم کیا کرو ہم کیا کریں*

‏جسے صیاد نے کچھ گل نے کچھ بلبل نے کچھ سمجھا 
چمن میں کتنی معنی خیز تھی اک خامشی مری..!!

*‏صورت دِکھا کے پھر مجھے بیتاب کر دیا*
 *اِک لطف آ چلا تھا غمِ انتظار میں*

مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد

*‏سراپا آرزو ہوں، درد ہوں، داغِ تمنّا ہوں*
*مجھے دُنیا سے کیا مطلب کہ میں آپ اپنی دُنیا ہوں میں*

‏الٰہی ترک محبت بھی کیا محبت ہے 
بھلاتے ہیں انہیں وہ یاد آئے جاتے ہیں

*‏اُن کی وہ آمد آمد، اپنا یہاں یہ عالم*
*اک رنگ آرہا ہے اک رنگ جارہا ہے*

‏جسے ہوائے زمانہ کبھی بُجھا نہ سکے
 قدم قدم پہ وہ اک شمع راہ پیدا کر

*‏کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے*
*جب تک ہمارے پاس رہے ہم  نہیں  رہے*

*‏آئینہ چوم رہے تھے وہ بار بار......!*
*دیکھا جو یک بہ یک مجھے، شرما کے رہ گئے*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں