21 مارچ 2019

Iftekhar Aarif افتخار عارف

21 مارچ...زندگی کی تمام تر حقیقتوں کو شعری قالب میں ڈھالنے والے شاعر افتخار عارف کا یوم ولادت

انتخاب و پیشکش....طارق اسلم ٰٰ مالیگاؤں

نام افتخار حسین عارف اور تخلص عارف ہے۔ 21 مارچ ۱۹۴۲ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔(بعض جگہوں پر 23 مارچ بھی مندرج ہے) بی اے ، ایم اے لکھنؤ یونیورسٹی سے کیا۔جرنلزم کا
ایک کورس انھوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے بھی کیا۔۱۹۶۵ء میں مستقل طور پر پاکستان آگئے اور ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔اس کے بعد افتخار عارف پاکستان ٹیلی وژن سے وابستہ ہوگئے۔ جب ٹیلی وژن میں پروگرام ’’کسوٹی‘‘ کا آغاز ہوا تو عبید اللہ بیگ کے ساتھ افتخار عارف بھی اس پروگرام میں شریک ہوتے تھے۔ یہ پروگرام بہت علمی اور معلوماتی تھا۔ ۱۹۷۷ء میں ریڈیو اور ٹیلی وژن سے استعفا دے کر بی سی سی آئی بینک، لندن سے وابستہ ہوگئے۔ اس کے بعد ڈائرکٹر جنرل اکادمی ادبیات پاکستان ،صدر نشین مقتدرہ قومی زبان اور چیرمین اکادمی ادبیات پاکستان کے عہدوں پر فائز رہے۔ افتخار عارف نے نظم ونثر دونوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں : ’’مہر دونیم‘، ’حرف باریاب‘، ’بارہواں کھلاڑی‘، ’اقلیم ہنر‘، ’جہان معلوم‘، ’شہرعلم کے دروازے پر‘(نعت ،سلام ومنقبت)۔ ان کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں ان کو’’آدم جی ایوارڈ‘‘،’’نقوش ایوارڈ‘‘، ’’صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی‘‘، ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’ہلال امتیاز‘‘ مل چکے ہیں۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:357

*افتخار عارف شعر وادب کی دنیا کا ایسا درخشندہ ستارہ ہے جس کی روشنی دورتک پھیلی ہوئی ہے- حیات شعراء میں انہیں امتیازی مقام حاصل ہے- اپنے ہم عصروں میں غالب و اقبال اور فراز و فراق کی جو حیثیت تھی وہی آج افتخار عارف کو حاصل ہے*

آج افتخار عارف صاحب کے یوم ولادت پر ان کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں جو اردو شاعری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں

*یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا*
*یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں*

*یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں*
*دعا کے دن ہیں مسلسل دعا کیے جائیں*

عجیب ہی تھا مرے دور گمرہی کا رفیق
بچھڑ گیا تو کبھی لوٹ کر نہیں آیا

*عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا*
*کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا*

*بہت مشکل زمانوں میں بھی ہم اہل محبت*
*وفا پر عشق کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں*

*بیٹیاں باپ کی آنکھوں میں چھپے خواب کو پہچانتی ہیں*
*اور کوئی دوسرا اس خواب کو پڑھ لے تو برا مانتی ہیں*

دعائیں یاد کرا دی گئی تھیں بچپن میں
سو زخم کھاتے رہے اور دعا دئیے گئے ہم

*ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال*
*جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں*

اک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا
اک یاد ہی تو تھی جو بھلا دی گئی تو کیا

*جب میرؔ و میرزاؔ کے سخن رائیگاں گئے*
*اک بے ہنر کی بات نہ سمجھی گئی تو کیا*

کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا
جہان رزق میں توقیر اہل حاجت کیا

*کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں*
*نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا*

کریں تو کس سے کریں نا رسائیوں کا گلہ
سفر تمام ہوا ہم سفر نہیں آیا

*مآل عزت سادات عشق دیکھ کے ہم*
*بدل گئے تو بدلنے پہ اتنی حیرت کیا*

*مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے*
*وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے*

میں جس کو ایک عمر سنبھالے پھرا کیا
مٹی بتا رہی ہے وہ پیکر مرا نہ تھا

*منہدم ہوتا چلا جاتا ہے دل سال بہ سال*
*ایسا لگتا ہے گرہ اب کے برس ٹوٹتی ہے*

سب لوگ اپنے اپنے قبیلوں کے ساتھ تھے
اک میں ہی تھا کہ کوئی بھی لشکر مرا نہ تھا

*شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر*
*سگ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا*

سپاہ شام کے نیزے پہ آفتاب کا سر
کس اہتمام سے پروردگار شب نکلا

*ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا*
*ہمارے بعد تم کو یہ جہاں کیسا لگے گا*

*رند مسجد میں گئے تو انگلیاں اٹھنے لگیں*
*کھل اٹھے میکش کبھی زاہد جو ان میں آ گئے*

تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا

*تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں*
*جان بہت شرمندہ ہیں*

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں

*وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی*
*اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا*

وہی فراق کی باتیں وہی حکایت وصل
نئی کتاب کا ایک اک ورق پرانا تھا

*کہیں کہیں سے کچھ مصرعے ایک آدھ غزل کچھ شعر*
*اس پونجی پر کتنا شور مچا سکتا تھا میں*

اس بار بھی دنیا نے ہدف ہم کو بنایا
اس بار تو ہم شہ کے مصاحب بھی نہیں تھے

*دل ان کے ساتھ مگر تیغ اور شخص کے ساتھ*
*یہ سلسلہ بھی کچھ اہل ریا کا لگتا ہے*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں