12 نومبر 2017

Akhtar Malegaonvi اختر مالیگاؤنوی

*⚪ تعارف:: شعرائے مالیگاؤں ⚪*
*پیشکش نمبر :::::: 7 :::::::*
..................................................................
*"اپنــــــــــی مٹّـــــــــی ســــــــونا ھـــــــے"*
..................................................................
*اخؔـــــــتر مالیـــــــــگانوی*
محمّد بشیر تخلّص اخؔـــــــتر میری پیدائش 1912ء مالیگاؤں میں ہوئی۔ دو سال کی عمر میں والدین کا سایۂ عاطفت سر سے اُٹھ گیا۔
ایک سال یتیم خانہ اور تین سال میں نے اپنے نانا جان منشی مدار اللہ صاحب مؔدعا کے یہاں گزارا۔ انہیں تین سال میں اردو تین کلاس کی مختصر تعلیم پائی وقت کی ستم ظریفی کہیئے کہ 1916ء میں نانا جان کا بھی انتقال ہوگیا اور نانا صاحب کے یہاں سے دادا صاحب کے یہاں منتقل ہوگیا۔ یہ زندگی میری عجیب و غریب زندگی تھی۔ میں نے مسلسل سات سال کڑکڑاتی سردی اور آگ برساتی ہوئی دھوپ میں ہاتھ سے تانی تن کر گزارے۔ طفلی سے عالمِ جوانی اسی شد و مد میں ختم ہوا۔ شعر کہنے کا جذبہ میری طبیعت میں بچپن ہی سے موجود تھا۔ میں عالمِ طفلی میں بھی اکثر بے جوڑ شعر کہہ دیا کرتا تھا۔ میری شاعری کا آغاز 1933ء میں ہوا۔ میں نے ابتداء میں جناب محمّد مصطفیٰ صاحب کوثؔر مالیگانوی سے مشورۂ سخن لیتا رہا آپ سے مجھے شرفِ تلمّذ زیادہ دیر تک حاصل نہیں رہا۔ آپ کی اصلاح شدہ غزلوں کی میعاد 10 - 12 غزلوں پر مبنی ہے۔ مجھے قبلہ استادی سے کبھی انکار نہیں ہوسکتا۔ اسکے بعد میں نے محترم جناب ادیؔب صاحب مالیگانوی سے کچھ غزلوں اور نظموں پر دوستانہ مشورہ لیا ہے۔ جسکی تعداد 12 غزلوں اور نظموں تک ہے۔ آپ کے مشورہ نے میری شاعری میں جو رنگ پیدا کیا ہے وہ نہایت اثر گیرثابت ہوا۔ میرا سرمایۂ کلام تقریبًا 200 غزلوں اور نظموں تک ہے 1937ء سے اب تک جو کچھ میں نے کاوشِ فکر کی ہے۔ اس پر کسی کا مشورہ نہیں ہے۔ میرے شعر میں غلطیاں ضرور ہوتی ہیں جسے میں کسی طرح انکار نہیں کرسکتا۔ جس کی تمام تر وجہ تعلیم کی کم یابی ہے۔ میں فنِ شعر سے قطعی نابلد ہوں یہ کہے مجھے ذرا بھی عار نہیں کہ میں آج بھی اربابِ نظر کے مشورے کا محتاج ہوں۔
         ناچیز - اختر مالیگانوی
              
* غـــــــــــــزل *
جو آرزوئے دل نہیں نشاطِ جسم و جاں نہیں
وہ زندگی تو موت ہے جو غم کی ترجماں نہیں
میں جی رہا ہوں آپ کی نگاہِ التفات پر
کرم تو پھر بھی ہے کرم ستم مجھے گراں نہیں
ہے شورِ اضطراب پر مدارِ کائناتِ دل
وہ بحرِ عمر کیا کہ جس میں موجِ بیکراں نہیں
گداز عجز چاہیئے مذاق سجدہ چاہیئے
جبینِ شوق کے لئے قیودِ آستاں نہیں
نشاط ایک عارضی سی چیز ہے جہان میں
ائے زندگی تو نعمتِ الم سے شادماں نہیں
شعاعِ آفتاب ہے ہر ایک ذرّہ کی جبیں
تمام دہر نور ہے نگاہِ ترجماں نہیں
رہِ حیات کے لئے فنادگی بھی شرط ہے
بجز فغانِ دل کوئی درائے کارواں نہیں
تھی برقِ شعلہ بار کو میرے نصیب ہی سے لاگ
چمن میں اور سب تو ہے میرا ہی آشیاں نہیں
نگاہِ نور سوزِ دل نفس بہ نغمہ کیف جاں
یقیں ترے وجود کا تو ہی بتا کہاں نہیں
ابھی تلک بجھی نہیں وہ آگ اشتیاق کی
یہ اور بات ہے کہ مجھ میں تابِ امتحاں نہیں
ائے اخؔترِ ستم زدہ شکایتِ ستم نہ کر
وہ کون سی زمین ہے جہاں پہ آسماں نہیں
_________*★ :: پیشکش:: ★*_________
*بزمِ تنویرِ ادب وہاٹس ایپ گروپ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں