12 نومبر 2017

Muslim Malegaonvi مسلم مالیگاؤنوی

*⚪ تعارف:: شعرائے مالیگاؤں ⚪*
*پیشکش نمبر :::::: 8 :::::::*
..................................................................
*"اپنــــــــــی مٹّـــــــــی ســــــــونا ھـــــــے"*
..................................................................
*مســـلؔم مالیـــــــــگانوی*
نام محمّد صدّیق تخلّص مســـلؔم والد کا نام منشی الٰہی بخش 1901ء مالیگاؤں میں پیدا ہوا۔ اجداد کا وطن یوپی ضلع اعظم گڑھ ہے۔
غدر 1857ء کے عام انتشار نے انہیں تلاشِ معاش میں مالیگاؤں پہنچایا۔ ابھی زندگی کی دو تین ہی بہاریں دیکھی تھیں کہ سایۂ پدری سے محروم ہوگیا۔ اور خاندانی منافشات نے تمام جائداد مقدمات کی بھینٹ چڑھا دی۔ مصیبت زدہ والدہ نے انتہائی عسرت و مصیبت برداشت کر کے پالا پوسا اور تعلیم دلائی۔ 1917ء میں اردو اور مراٹھی ورنا کیولر امتحان کامیاب کر کے مقامی مونسپل اسکول میں درس و تدریس کی خدمت پر مامور ہوگیا۔ اس سلسلے میں دو سال تک ٹریننگ کالج پونہ میں زیرِ تعلیم رہ کر 1921ء میں سیکنڈ ایئر کی سند حاصل کی۔ فی الحال صدر مدرس کی جگہ پر فائز ہوں۔ فارسی کی انتہائی کتابیں قصائدِ عرفی ، سکندر نامہ بدرجۂ چار تک حضرت مولانا عؔزیز مدظلہ سے سبقًا پڑھیں۔ عربی اور انگریزی کی طرف بھی توجہ رہی لیکن خانگی مصروفیتوں نے ابتدائی کتابوں سے آگے نہ بڑھنے دیا۔ ہندی اور گجراتی میں البتہ کچھ استعداد حاصل کر لیا۔ خوش قسمتی سے اراکینِ مدرسہ بیت العلوم کے علمی ماحول میں زندگی کی مختلف منزلیں طئے ہوئیں۔ اور مولانا عؔزیز جیسے عالم و فاضل کے فیضانِ صحبت سے فیضیاب ہوتا رہا۔ اسلیئے طبیعت میں علم و ادب اور شعر شاعری سے ایک خاص انس پیدا ہوگیا۔ تاآنکہ افتادِ طبیعت نے شعر کہنے پر مجبور کردیا۔
      شاعری میں مولانا موصوف ہی سے تلمذ حاصل ہے۔ اور آپ ہی کی استادانہ شفقّت کا نتیجہ ہے نظم و نثر کی جملہ اصناف پر خیال آرائی کر لیتا ہوں۔ احباب نے "بہار" کے نام سے نظم و نثر کا ایک گلدستہ جاری کیا تھا جسکی ادارتی ذمے داری مجھے ہی تفویض کی گئی تھیں۔ ایجوکشنل کانفرنس پونہ کے اجلاس میں بہترین نظم پیش کرنے پر دیوان بہادر ریاستِ جونا گڑھ نے اپنی ریاست کی جانب سے ایک طلائی تمغہ عنایت فرمایا۔
مسلؔم مالیگانوی            14 جولائی 1945ء
              
* شـــــــــــکریــــــــــہ*
دیا دل مجھ کو تونے اور دل کو کامرانی دی
کروں میں ناز جس پر تونے ایسی زندگانی دی
تری فیّاضیاں ہیں موج اندر موج کیا کہنا
طبیعت دی طبیعت میں سمندر کی روانی دی
تفکّر کے لئے کیا کیا جنوں انگیزیاں بخشی
تخیّل کے لئے کیسی فضائے لامکانی دی
تمنائیں تمنائی کہ پھولوں کی طرح کھِلتے
جوانی اور وہ بھی کس قدر رنگیں جوانی دی
سکھائے میری وحشت کو سبق آداب وحشت کے
برنگِ لالہ و گُل داغِ دل کو خونچکانی دی
کبھی میری زباں کو خامشی کا حکم فرمایا
کبھی محفل میں مجھ کو جرأتِ رنگیں بیانی دی
لقب بخشا گیا مجھ کو امینِ رازِ فطرت کا
ستاروں کی خموشی دی گُلوں کی بے زبانی دی
دیا موقع نہ ہرگز تشنہ کامی کی شکایت کا
مجھے ساغر بہ ساغر دی ، پرانی سے پرانی دی
مری بربادیوں پر نظمِ عالم کی بنا رکھی
نویدِ زندگانی موت کی گویا زبانی دی
مری خاموشیاں شمعِ ازل کی ترجماں ٹھہری
زباں دی عشق کو لیکن بہ مشکل بے زبانی دی
غم و درد و الم دیکر مجھے کیا کیا شرف بخشا
نہیں شکوہ کسی کو گر خموشی شادمانی دی
کرم تیرا کہ کُنتُم خَیرَا اُمَّت کا دیا رتبہ
عطا تیری کہ مسلؔم کو حرم کی پاسبانی دی
_________*★ :: پیشکش:: ★*_________
*بزمِ تنویرِ ادب وہاٹس ایپ گروپ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں