قسط نمبر 2 : پیدائش کے وفت کے شہری و ملکی حالات
ابھی ہندوستان آزاد نہیں ہوا تھا۔ 1946 کی پہلی سہ ماہی تھی۔ دوسری عالمی جنگ ختم ہوچکی تھی۔ امریکہ نام کا نیا سپر پاور وجود میں آچکا تھا۔ برطانیہ جنگ میں فتح کے باوجود معاشی طور پر قلاش ہوچکا تھا۔ یکے بعد دیگرے ممالک اس کے تسلط سے آزاد ہوئے جارہے تھے۔ شہر مالیگاؤں میں کانگریس کے مولوی عبدالرزاق عبدالمجید میونسپلٹی کے صدربلدیہ تھے تو مسلم لیگ کے خان صاحب عبدالرحیم بطور ایم ایل اے شہر کی نمائندگی کررہے تھے۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں پارٹی سے زیادہ مولوی عبدالرزاق گروپ اور خان صاحب گروپ مشہور تھے۔
مولوی صاحب اور خان صاحب کے درمیان سیاست عروج پر تھی۔ مگر دونوں نے کبھی بھی مخالف کی پگڑی نہیں اچھالی۔ تعمیری سیاست کو فوقیت دی۔ تین قندیل اور آس پاس کا علاقہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا تھا۔ شہر میں بھی آزادی کے متوالے سرگرم عمل رہتے تھے۔ ایسے ماحول میں یکم مارچ 1946 کو خوش آمد پورہ کے ایک متوسط گھرانے میں محمد صابر پہلوان اور رابعہ بانو کے یہاں پہلے بچے کا جنم ہوا جس کا نام دادا رحمت اللہ نے بڑے پیار سے محمد حنیف رکھا۔ آگے چل کر یہی بچہ حاجی محمد حنیف صابر اور حنیف لیڈر کے نام سے پورے شہر میں مشہور ہوا۔
حاجی حنیف صابر کا پورا نام محمد حنیف ابن محمد صابر ابن رحمت اللہ ابن محمد اسحاق ابن عبداللہ ہے۔ محمد اسحاق عبداللہ اتر پردیش کے مہو شہر کے ایک متمول شخص تھے۔ 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے بعد جب انگریزوں کا ظلم وستم حد سے بڑھ گیا تو اتر پردیش کے مسلمانوں نے اپنی قیمتی زمینوں اور بسا بسایا گھر سنسار چھوڑ کر جنوب کی راہ لی۔ کوئی اندور میں رک گیا تو کوئی برہانپور ۔ دھولیہ اور مالیگاؤں میں رکا۔ کوئی اور آگے جاتے ہوئے بھیونڈی اور ممبئی تک پہنچ گیا۔ ان ہی خانماں برباد لوگوں میں رحمت اللہ اور محمد اسحاق بھی شامل تھے۔ آپ لوگوں نے موسم اور گرنا کے سنگم پر آباد مالیگاؤں کو اپنا مسکن بنایا۔ گھر میں ہی دستی کرگھے پر رنگین ساڑی بننے کی شروعات کی۔ محمد اسحاق کے دو بیٹے تھے۔ بڑے بیٹے رحمت اللہ اور چھوٹے محمد رمضان۔ دونوں بیٹوں نے آبائی پیشے کو اپنایا اور ساڑی بننے میں والد کی مدد کرنے لگے۔ رحمت اللہ یہ حاجی حنیف صابر کے دادا تھے۔ رحمت اللہ کی شادی سلیمہ بانو سے ہوئی۔ ان کی چھ اولادیں ہوئیں۔ دوبیٹے اور چار بیٹیاں۔ بڑے بیٹے کا نام محمد صابر اور چھوٹے کا نام محمد عمر تھا۔ 1921 میں محمد صابر کی پیدائش ہوئی۔ آپ کو پہلوانی کا شوق تھا اور مالیگاؤں قلعہ میں ہونے والے دنگلوں میں زور و شور سے حصہ لیتے تھے۔ 1943 کے آس پاس محمد صابر کی شادی موتی پورہ کے مشہور ڈومن خانوادے کی رابعہ بنت محمد اسماعیل ڈومن سے ہوئی۔ یہ دوسری عالمی جنگ کا دور تھا۔ جاپان جرمنی ایک طرف تو برطانیہ امریکہ دوسری طرف تھے۔ دنیا دو حصوں میں بٹ چکی تھی۔ ہندوستانی سپاہی بھی برطانیہ کی جانب سے جنگ میں شامل تھے۔ 17 اگست 1944 کو مالیگاؤں میں بڑا سیلاب آیا۔ موسم ندی پورے عروج پر تھی۔ گاؤں میں پانی داخل ہوچکا تھا۔ قلعہ ۔ موتی پورہ جیسے علاقوں میں پانی بھر گیا تھا۔ میری دادی اکثر اس وافعے کا ذکر کرتی تھی کہ کس طرح موتی پورہ سے چندن پوری گیٹ تک رسے باندھے گئے تھے اور ان رسوں کو پکڑ کر دادی کے تمام میکے والے خوش آمد پورہ میں واقع ہمارے گھر پر آئے تھے اور پانی اترنے تک قیام کیا تھا۔ خوش آمد پورہ اور بیلباغ نسبتا اونچائی پر واقع ہیں۔ اس وجہ سے جتنے بھی سیلاب آئے یہ علاقے محفوظ رہے۔
پاور لوم آنے کے بعد محمد صابر پہلوان اور ان کے بھائی محمد عمر نے گھر کے نیچے دستی کرگھے کی جگہ پاورلوم لگوایا جس پر دونوں رنگین ساڑی بنا کرتے تھے۔ اس وقت صرف دن میں پاورلوم جاری رہتے تھے اور شام ڈھلے لوگ گھر پہنچ جاتے۔ ان کے پاس بیوی بچوں اور دوست یار کیلئے بھرپور وقت ہوتا۔ گاؤں چھوٹا تھا مگر سب ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشیوں میں برابر شریک ہوا کرتے تھے۔ (جاری)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں