✍🏻 شکیل حنیف صابر
نہال صاحب نے طویل عرصے تک نہ صرف اس شہر بلکہ شہریان کے دلوں پر بھی راج کیا ہے۔ ان کی ہردلعزیزی کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی صاحب کے خلاف کچھ بول دے تو ان کے چاہنے والے مرنے مارنے پر
نہال صاحب کو یہ کامیابی طشت میں سجا کر نہیں ملی تھی بلکہ صاحب کے اندر چند ایسی امتیازی خصوصیات تھیں جن کی وجہ سے لوگ ان کے دیوانے بن جاتے تھے۔ اس مضمون میں ہم ان کی ایسی ہی خصوصیات کا ذکر کریں گے۔ ان کی یہ خصوصیات شہر اور ملک کے مختلف حصوں کے سیاستدانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔
*جہد مسلسل*
نہال صاحب کسی سیاسی گھرانے میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی دنیا آپ بنائی تھی۔ دسمبر 1950 میں نیاپورہ وارڈ سے میونسپلٹی کا پہلا الیکشن لڑا مگر کامیابی نہیں ملی۔ بہت سے لوگ الیکشن لڑتے ہیں اور ناکامی کے بعد ہمت ہار جاتے ہیں۔ لیکن نہال صاحب دگنا حوصلے سے وارڈ کا کام کرتے رہے اور پھر 1954 کے الیکشن میں شاندار انداز میں میونسپلٹی میں داخل ہوئے اور لگاتار تین بار کونسلر منتخب ہوئے۔ اپنی دوسری ٹرم کے آخری سال میں 6 جون 1961 سے 17 جون 1962 تک آپ صدربلدیہ بھی رہے۔ صدربلدیہ رہتے ہوئے فروری 1962 میں آپ نے پہلی بار اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ آپ الیکشن ہار گئے لیکن حوصلہ اور بڑھ گیا۔ آپ نے انتقامی کارروائیوں میں وقت ضائع نہیں کیا بلکہ اپنے اندر رہ جانے والی کمی کو پورا کرنے کی طرف دھیان دیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ 40 سال کے نوجوان نے ایک تجربہ کار سیاستداں کو شکست دی اور نہال صاحب پہلی بار ایم ایل اے بنے۔ 1972 میں صاحب کو پھر شکست ہوئی لیکن آپ نے ہمت نہیں ہاری اور ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ 1978 سے1995 تک لگاتار پانچ بار ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ 1999 میں شکست کے بعد جب لوگ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ صاحب کا دور ختم ہوگیا تبھی 2002 میں کارپوریشن الیکشن میں عظیم الشان کامیابی حاصل کرتے ہوئے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ انسان کے اندر اگر ہمت و حوصلہ ہو اور مسلسل کوشش کرتا رہے تو کوئی بھی کام ناممکن نہیں۔ یقینا ناکامی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔
*بیباکی*
حق گوئی اور بیباکی نہال صاحب کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ آپ نڈر اور بیباک تھے مگر اس بیباکی میں غنڈہ گردی اور لاقانونیت نہیں تھی۔ جو بھی کام کرتے قانون کا احترام کرتے ہوئے قانون کے دائرے میں رہ کر کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بڑے بڑے آفیسرس بھی آپ سے مرعوب رہا کرتے تھے۔ ایوان اسمبلی میں بات کرتے تو انداز اتنا دوٹوک ہوتا اور دلائل اتنے مضبوط ہوتے کہ حکومت اور وزراء بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔
*رعب و دبدبہ*
آفیسران پر آپ کا رعب و دبدبہ ایسا تھا کہ وہ کسی قسم کی ظالمانہ کارروائی سے گریز کرتے تھے۔ آپ کا ورکر ہو یا عام آدمی سب کو ایک عجیب سے تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔
اسی طرح کوتاہی اور بدعنوانی کی ہمت بہت کم کارندے کیا کرتے تھے۔
آج بھی اکثر مواقع پر لوگ صاحب کو یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ
*اگر صاحب ہوتے تو ایسا۔۔۔۔۔۔*
یہ اپنے آپ میں سب سے بڑا خراج عقیدت ہے۔ ایک لیڈر کیلئے اس سے بڑی بات کوئی نہیں ہوسکتی کہ مرنے کے بعد لوگ آپ کو یاد کریں۔
*بے نیازی*
بہت سارے مواقع آئے مگر آپ نے کبھی اقتدار یا عہدے کے پیچھے بھاگنا گوارا نہ کیا۔ آپ کو راجیہ سبھا کی سیٹ سے لے کر وزیراعلی کی کرسی تک کا آفر ہوا لیکن آپ نے اپنے اصولوں اور ضمیر کا سودا نہیں کیا۔ بہت سارے ادارے قائم کئے اور کئی اداروں کو پروان چڑھانے میں تعاؤن کیا لیکن اس کے بدلے کبھی کوئی غلط فائدہ نہیں اٹھایا نہ کسی عہدے کی چاہ کی۔ آپ ان سب چیزوں سے بے نیاز تھے۔ عوامی مقبولیت ہی آپ کا سب سے بڑا عہدہ تھا۔
*قناعت و سادگی*
کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ کوئی وزیر سائیکل چلا رہا ہے۔ جی نہیں میں سیاسی مقصد یا پٹرول کے خلاف احتجاج وغیرہ کیلئے ایک آدھ دن سائیکل چلانے والے وزیروں کی بات نہیں کررہا ہوں۔ ایک ایسے وزیر کی بات کررہا ہوں جو اپنے شہر میں گھر سے آفس جانا ہو یا کسی پروگرام میں اکثر و بیشتر سائیکل کا استعمال کیا کرتا تھا۔ جی ہاں یہ نہال صاحب کی سادگی ہی تھی کہ شہر میں کبھی بھی لال بتی میں سوار ہوکر بیجا دکھاوا نہیں کیا اور عوام کے درمیان عوام کے جیسی سواری کا ہی استعمال کیا۔ اپنے لیڈر کی یہ ادا لوگوں کو اتنی بھائی کہ لوگ انہیں دل سے اپنا لیڈر مانتے لگے۔ اور ایک بار جسے دل دے دیا جائے اس کیلئے انسان کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ عوامی لیڈر بننے کیلئے عوام کے درمیان عوام کے جیسا رہنا بہت ضروری ہے۔
آپ سادہ زندگی گزارتے تھے اور حرص و لالچ سے کوسوں دور تھے۔ آپ چاہتے تو بے دریغ مال جمع کرسکتے تھے لیکن آپ کبھی بھی روپے پیسے کے پیچھے نہیں بھاگے۔
*ہمہ وقت دستیاب*
نہال صاحب روزانہ پارٹی آفس پر وقت دیتے تھے۔ ہر خاص و عام ان سے بہ آسانی رابطہ کر سکتا تھا۔ اس زمانے میں موبائل تو نہیں تھا مگر آفس اور گھر کے لینڈ لائن نمبرس پر بھی کال کر کے لوگ صاحب سے رابطہ کرلیا کرتے تھے۔
*مخلص ساتھی*
آپ اپنے ورکرس اور ساتھیوں کی برابر خبر گیری کیا کرتے۔ شادی بیاہ ہو یا موت میت ضرور شریک ہوتے۔ کسی مصیبت کے وقت سب سے آگے رہتے۔ یہ خبر گیری مطلب والی نہیں تھی کہ فلاں میرا ورکر ہے یا اس سے فائدہ ہے تو وہاں جانا چاہیے اور فلاں کی اب کوئی اہمیت نہیں تو نظر انداز کردو۔ نہال صاحب بنا کسی غرض کے دوستی نبھاتے تھے۔ اس بات کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ میرے والد نہال صاحب کے قریبی ساتھی تھے۔ جب ایک سیاسی کیس میں میرے والد تین دن تک گرفتار رہے تو تینوں دن نہال صاحب اور دیگر ساتھی پورا دن ہمارے ساتھ کورٹ میں رہتے تھے اور ہمیں حوصلہ دیتے تھے۔ اسی طرح ممبئی میں میرے والد کا آپریشن ہوا تو روزانہ جو سب سے پہلا فون آتا تھا وہ صاحب کا ہوتا تھا۔ آپ خود علیل تھے مگر عیادت کیلئے گھر آتے تھے۔ ایک لیڈر سے جب ایسا پیار ملتا ہے تو لوگ اس کے دیوانے کیونکر نہ ہوں گے۔
*ایمانداری*
نہال صاحب کے طوبل سیاسی کرئیر میں ان پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں لگا۔ یہ اپنے آپ میں ایک کارنامہ ہے۔ انسان ایمانداری سے اپنا کام کرے تو قدرت بھی مدد کرتی ہے۔
*سچائی*
سچ بولنا صاحب کی اہم خوبی تھی۔ کئی کیسیس ایسے آئے کہ وہ عدالت میں جھوٹ بول کر بچ سکتے تھے۔ لیکن آپ نے ہمیشہ سچائی کو مقدم رکھا۔
*نبض شناسی*
ایک کامیاب سیاستداں کی سب سے بڑی خوبی ماحول شناسی ہوتی ہے۔ نہال صاحب لوگوں کی نبض جانتے تھے۔ وہ عوام کے دل کی بات جان لیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کوئی تحریک چھیڑتے تو لوگوں کو لگتا کہ ارے یہی تو ہم بھی چاہتے ہیں۔ اس طرح وہ عوام کی آواز بن جایا کرتے تھے۔ آپ کی تحریکیں سیاسی مفاد سے بالاتر ہوتی تھیں۔
*قوم کا درد*
آپ کے اندر قوم کا درد بدرجہ اتم موجود تھا۔ ریاست ہو یا ریاست کے باہر کہیں بھی کسی پر ظلم ہو آپ ان کی ڈھال بن جایا کرتے تھے۔ مظلوموں کے حق میں اکثر پہلی آواز آپ کی ہی بلند ہوتی۔ بابری مسجد شہادت پر بطور احتجاج تاعمر اپنے بازو پر کالی پٹی باندھی رہی۔
*المختصر ان جیسی کئی خوبیاں نہال صاحب میں تھیں جن کی وجہ سے لوگ ان کے دیوانے تھے۔ ممکن ہے لکھتے وقت کچھ خوبیوں کا ذکر چھوٹ گیا ہو یاد آنے پر آئندہ کسی موقع پر یا سوانح حاجی حنیف صابر میں ان کا تفصیلی ذکر کروں گا۔ ان شاء اللہ۔*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں