باب سوم ۔ 1946 سے 1950 تک کے حالات (قسط نمبر 3)
حاجی حنیف صابر ابھی ایک برس کے ہی تھے کہ وطن عزیز کو آزادی کا پروانہ مل گیا۔ جیسے ہی گھڑی کی سوئیوں نے رات بارہ بجنے کا اعلان کیا اور 15 اگست 1947 کی تاریخ شروع ہوئی پورا ملک خوشی سے جھوم اٹھا۔ دہلی کے تاریخی لال قلعہ پر آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ترنگا پرچم لہرایا اور اس طرح ہمارا ملک ایک آزاد ملک بن گیا۔ اس خوشی کے موقع پر بھی جاتے جاتے انگریزوں نے ہمیں دکھ دینے کا کام کیا۔ آزادی کے ساتھ ہی وطن عزیز کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ شمالی ٰ مرکزی اور جنوبی ہند جہاں ہندو اکثریت تھی اسے ہندوستان کا نام دیا گیا اور مشرقی و مغربی ہند کے وہ علاقے جہاں مسلم اکثریت تھی انہیں پاکستان کا نام دیا گیا۔ ان کے علاوہ دونوں طرف مختلف راجے مہاراجے اور نوابوں کی بہت ساری چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر دونوں طرف کی تمام ریاستیں نئے وجود میں آئے ممالک میں ضم ہوگئیں۔ کچھ عرصہ بعد بقیہ ریاستیں بھی ضم ہوگئیں۔ اس کی ایک الگ تاریخ ہے۔ تقسیم ہند کے ساتھ ہی ایک کربناک دور شروع ہوا۔ ہندوستان کے مسلم پاکستان کی طرف تو پاکستان کے ہندو ہندوستان کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ اس مشکل دور میں بھی بہت سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے اپنی مٹی کو چھوڑ کر جانا گوارا نہ کیا۔ شہر مالیگاؤں میں بھی ایسے لوگوں کی اکثریت تھی۔
یہ مٹی کی محبت ہی تھی کہ اس شہر کے لوگوں نے یہیں پر رہنے کا فیصلہ کیا۔ حاجی حنیف صابر کے رفیق سحر حاجی محمد ابن احمد قربان بتاتے ہیں کہ جس دن آزادی ملی ہر طرف خوشی کا ماحول تھا۔ حاجی محمد صاحب پرائمری میں زیر تعلیم تھے۔ اسکولوں میں بچوں کو شیرینی اور ایک ایک بلہ تقسیم کیا گیا تھا۔ چوک چوراہوں پر لوگوں کا جم غفیر جمع تھا۔ الغرض ہر طرف خوشی کا ماحول تھا۔
حاجی حنیف صابر صاحب کے دادا رحمت اللہ ۔ والد صابر پہلوان اور چچا محمد عمر نے بھی وطن کی مٹی کو تھامے رکھا۔ خوش آمدپورہ کی کشادہ گلیوں میں حاجی حنیف صابر پروان چڑھے۔ آپ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اس لئے دادا دادی اور خاندان میں سب کے لاڈلے تھے۔ آپ کے بچپن میں (1946 سے 1950) آزادی وطن کے علاوہ شہر , ملک اور دنیا میں اور بھی بہت سارے اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے۔ 1945 سے 1950 کی میونسپل باڈی میں مولوی عبدالرزاق ہی بدستور صدربلدیہ رہے۔ آپ 1942 میں صدربلدیہ بنے تھے۔ اس باڈی میں ہارون انصاری اور عباس علی قاضی جیسے لیڈرس بھی کونسلر تھے۔ اسی طرح اس عرصے میں خانصاحب عبدالرحبم شہر کے ایم ایل اے رہے۔ آپ 1937 میں پہلی بار ایم ایل اے بنے تھے جبکہ دوسری بار 1946 سے 1952 یعنی آزاد ہندوستان کے پہلے الیکشن تک آپ شہر کے ایم ایل اے رہے۔ چالیس کی دہائی کے آخر میں ہی مستقبل کے عظیم لیڈر اور حاجی حنیف صابر کے سیاسی رہنما ساتھی نہال احمد نے سیاست میں قدم رکھا۔ 1950 میں آپ نے پہلا میونسپل الیکشن لڑا مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے باوجود آپ نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی محنت و لگن سے وہ کامیابی حاصل کی کہ تقریبا نصف صدی تک نہ صرف اس شہر پر آپ چھائے رہے بلکہ ملگ گیر شہرت حاصل کی۔
آزادی وطن کے علاوہ اہم شہری واقعات پر نظر ڈالیں تو 1948 میں قربانی کے سوال پر مالیگاؤں کے حالات خراب ہوگئے تھے۔ میری دادی بتاتی تھیں کہ اس وقت فوج کی سکھ بٹالین شہر میں وارد ہوئی تھی۔ ہمارے بزرگ اکثر اس واقعے کا ذکر کرتے ہیں۔
1947 میں آزادی اور تقسیم ہند کے بعد جواہر لال نہرو بھارت کے پہلے وزیراعظم بنے۔ اس وقت بھارت کا دستور نہیں بنا تھا اور صدرجمہوریہ کا عہدہ تخلیق نہیں ہوا تھا۔ اس لئے دستور بننے تک صدر مملکت کی ذمہ داریاں گورنر جنرل کے پاس تھیں۔ ماؤنٹ بیٹن آخری انگریز گورنر جنرل تھے۔ انہوں نے ہی آزاد ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ 1948 میں راج گوپال اچاریہ گورنر جنرل بنے اور 1950 میں پہلے صدر جمہوریہ کے انتخاب تک آپ نے ذمہ داریاں نبھائیں۔ اسی طرح 1947 میں کشمیر کو لے کر ہند و پاک کے درمیان پہلی جنگ ہوئی۔ 1948 میں حیدرآباد پولیس ایکشن ہوا۔ جس کے بعد حیدرآباد بھارت میں شامل ہوگیا۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو میں ہی امریکہ کی ایماء پر 1948 میں اقوام متحدہ کی ایک قراداد کے ذریعے فلسطین کی زمین پر اسرائیل نامی ملک کا قیام عمل میں آیا اور عربوں کو ایک طویل جنگ میں جھونک دیا گیا۔ اس دوران 26 جنوری 1950 کو بھارت کا دستور نافذ ہوا۔ جس کی رو سے ہمارا ملک ایک سیکولر جمہوری ملک قرار دیا گیا۔ ایسا طرز حکومت اختیار کیا گیا جس میں صدر اور وزیراعظم دونوں کا اپنا ایک مقام ہو۔ جمہوری ملک بننے کے بعد گورنر جنرل کی جگہ پریسیڈنٹ آف انڈیا یعنی صدر جمہوریہ نے لے لی۔ اس طرح 1950 میں ڈاکٹر راجندر پرساد ملک کے پہلے صدرجمہوریہ منتخب ہوئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں