آج 13 مارچ ۔ مترنم و مقبول انقلابی شاعر حبیب جالب کا یوم وفات
(انتخاب : طارق اسلم ٰٰ مالیگاؤں) نام حبیب احمد اور تخلص جالب تھا۔ 24 مارچ ۱۹۲۸ء کو گاؤں افغاناں ، ضلع ہوشیار پور میں پید اہوئے۔۱۴؍اگست۱۹۴۷ء کو کراچی آگئے۔ انھوں نے راغب مرادآبادی
کو اپنی کچھ غزلیں اصلاح کے لیے دکھائیں، بعد میں شاگردی ترک کردی۔حبیب جالب نے روزنامہ’’جنگ‘‘ اور روزنامہ’’امروز‘‘ میں ملازمت کی۔فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ترنم سے اشعار پڑھتے تھے جو ان کا ایک منفرد انداز تھا۔۱۳؍مارچ۱۹۹۳ء کو حبیب جالب لاہور میں انتقال کرگئے۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’برگ آوارہ‘، ’سرمقتل‘، ’عہد سزا‘، ’گوشے میں قفس کے‘، ’چاروں جانب سناٹا‘، ’حرف حق‘، ’اس شہر خرابی میں‘، ’کلیات جالب‘ بھی شائع ہوگئی ہے۔مارشل لا کے دور میں ان کی کتاب ’’سرمقتل‘‘ ضبط کرلی گئی۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:217موصوف کے یوم وفات پر ان کے کچھ منتخب اشعار احباب کی خدمت میں پیش ہیں
*انتخاب و پیشکش.....طارق اسلم*
*اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں*
*تخت پر بیٹھے ہیں یوں جیسے اترنا ہی نہیں*
آنے والی برکھا دیکھیں کیا دکھلائے آنکھوں کو
یہ برکھا برساتے دن تو بن پریتم بیکار گئے
*چھوڑ اس بات کو اے دوست کہ تجھ سے پہلے*
*ہم نے کس کس کو خیالوں میں بسائے رکھا*
دل کی بات لبوں پر لاکر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھااس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
*دنیا تو چاہتی ہے یونہی فاصلے رہیں*
*دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل*
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
*ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں*
*دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں*
*اک تری یاد سے اک تیرے تصور سے ہمیں*
*آ گئے یاد کئی نام حسیناؤں کے*
اک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری
دو روز میں ہم پر جو یہاں بیت گئی ہے
*جن کی خاطرشہربھی چھوڑا جن کےلئے بدنام ہوئے*
*آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں*
جن کی یادوں سے روشن ہیں میری آنکھیں
دل کہتا ہے ان کو بھی میں یاد آتا ہوں
*کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں*
*کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے*
کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں
بیتے ہوئے دن رات نہ یاد آئیں تو سوئیں
*لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا*
*ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا*
*لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری*
*ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں*
نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال
عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے
*پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو*
*جستجو آج بھی اسی کی ہے*
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
*تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ*
*الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے*
ان کے آنے کے بعد بھی جالبؔ
دیر تک ان کا انتظار رہا
*اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی*
*ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا*
یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم
لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم
*یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا*
*جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے*
خوشامد جو کرے فنکار ہے وہ
جو سچ بولے یہاں غدار ہے وہ
*تیری توجہ کا اعجازکہ مجھ سے ہر شخص*
*تیرے شہر کا برہم ہے میری جاں*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں