12 مارچ 2019

افسانہ : فیصلہ : نعیم سلیم

فیصلہ : نعیم سلیم

شہر میں اپنی نوعیت کے سب سے معیاری نئے تعلیمی ادارے آئڈیل کیمپس میں ٹیچرس پروفیسرس اسامیوں کے لئےانٹرویو جاری تھا.توقع کے مطابق درجنوں امیدوار قطار میں تھے.چئرمن شیخ صاحب بھی صبح سےسلیکشن کمیٹی و ماہرین کے ساتھ تشریف فرما تھے.آخری امیدوار
اجازت لے کر
اندر آیا. ہیڈ ماسٹر اشرف گیلانی نے معمول کے مطابق اسےایک نشست پر بیٹھے کا اشارہ کرنے کے ساتھ ہی اپناتعارف پیش کرنے کیلئےکہہ دیا۔ "سر میرا نام چودھری زاہدہے اور میرے ڈیڈ ی کا نام شاہدچودھری ہے۔" امید وار نے نہایت خود اعتمادی سے اپنا تعارف پیش کر دیا۔ شاہد چودھری کا نام سنتے ہی چئرمن صاحب ایک لمحے کیلئے ٹھٹھک گئےپھر پوچھ بیٹھے۔ "کیا سینٹرل کیمپس والے چودھری صاحب؟۔۔۔۔" امیدوار زاہدچودھری کے چہرےپر مایوسی چھا گئ وہ نروس ہوتے ہوئے بولا۔ "جی ہاں۔" "ٹھیک ہے۔۔۔۔آگے بڑھتے ہیں۔" چیئرمن کی اجازت ملتے ہی پینل کے ماہرین نےمضمون کے متعلق سوالات کر دئیے۔زاہد چودھری نہایت اعتماد بھرے انداز میں ان کے جوابات دیتا رہا۔اس کے جوابات سن کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ جو بھی سوال کر رہے ہوں اس کا جواب اس کی زبان کی نوک پر رکھا ہو اہو۔پینل نے چودھری زاہد کی ذہانت کا اعتراف کر لیانظروں ہی نظروں میں زاہد کے حق میں فیصلہ دیدیا۔زاہد چودھری نے پینل کے ماہرین کی نظروں کو پڑھ لیا۔ اس کے دل میں ایک عجیب قسم کی مسرتوں کا احساس دھڑکنے لگا۔ انتخاب کا حتمی فیصلہ چیئرمن شیخ صاحب کو کرنا تھااسلئے پینل کے لوگوں نے ان کے چہرے پر نظریں مرکوز کردیں۔ہر نظر میں ایک ہی سوال تھا۔ "کیاکہتے ہیں چیئرمن صاحب اس امیدوارچودھری زاہد کے بارے میں جو ہمارے معیار پر پورا اتر رہا ہے؟" چیئرمن صاحب نے دو ایک مرتبہ تھوک نگلا اور زاہد کی بجائے ہیڈ ماسٹر سے مخاطب ہوئے۔ "ٹھیک ہے سر! ان سے کہہ دیں کہ جو بھی فیصلہ ہو گا ہم انھیں فون پر بتا دیں گے۔" تھوڑی دیر بعدشیخ صاحب آفس سے نکلے۔اپنے گھر پہنچے اور اپنے کمرے میں پہنچتے ہی صوفے پر لڑھک گئے۔ ان کے ذہن کی اسکرین پر بیس سال پہلے کے مناظرفلم کی طرح روشن ہو گئے۔ وہ خود نوکری کے حصول کیلئےشہر کے مشہور تعلیمی ادارےسینٹرل کیمپس میں انٹرویو کیلئے حاضر ہیں۔۔۔ اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔۔۔اور اس یقین کے ساتھ انٹر ویو سے لوٹ رہے ہیں کہ ان کا انتخاب ہوجائےگا۔۔۔مگران کی بجائے کسی دوسرے امیدوار کو منتخب کرلیا گیا جو کسی طرح شیخ صاحب کی برابری نہیں کر سکتا تھا۔بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ معمولی خاندانی رنجش کی بناء پرچئرمن چودھری صاحب نے شیخ صاحب کا پتہ کاٹ دیا تھا.اس واقعے کا انکے دل ودماغ پر گہرا اثر پڑااور وہ شہر سے کئی سو کلو میٹر دورساحلی علاقے کی ایک اسکول میں جاب پر لگ گئے۔کچھ دنوں بعد بیگم صبا ء اورمعصوم بچےکو بھی ساتھ لے گئےاور وہیں سکونت اختیار کر لی.ان کی بیوی صبا اعلی تعلیم یافتہ تھی ۔ وہ گھر پر سلائی کڑھائی کے ساتھ اطراف کے بچوں کو دینی تعلیم اورٹیوشن دینے لگی۔شیخ صاحب نےاپنی تمام تر صلاحیتیں قوم وملت کی تعلیم وترقی کیلئےصرف کرکےغیرمعمولی کام انجام دینااپنا مقصدحیات بنا لیا ۔ تدریسی خدمات کے ساتھ ہی تعلیمی بیداری کےلئے شب وروز محنت کرتے رہے۔۔۔اور ایک وقت ایسا آیا کہ پورے ضلع میں ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے ایک مقام بنالیا۔ان کے لیکچرس شہر بیرون شہر اور دھیرے دھیرے پوری ریاست میں ہونے لگے.تب سینٹرل کیمپس کے ذمہ داران کو احساس ہواکہ انہوں نے بہت قیمتی ہیرا کھودیا۔ "کیا ہوا آپ کی طبیعیت تو ٹھیک ہے نا؟کب آکر صوفے پر لیٹے؟بیڈپرآرام کیجئے۔کیا بناؤں آپ کیلئے؟" بیگم صاحبہ کی آوازپر شیخ صاحب چونک کو اٹھ بیٹھے.یکے بعد دیگرے کئی سوالات پر مسکرا کر بولے۔ "نہیں کچھ نہیں ہوا ہے مجھےبس تھوڑی تھکان محسوس کررہا تھا..." کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر شیخ صاحب نے ٹی وی آن کیا.نظریں تو اسکرین پر تھیں مگر ذہن پھر انہیں یادوں میں کھوگیا.چھٹیوں میں آپ وطن آتے،شہر کے تعلیمی حالات کا جائزہ لیتےاپنے دوستوں سےاس تعلق سے مشورہ کرتے..تعلیمی خدمات کی بنا پرسرکاری اداروں اور سیاسی ہستیوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.چنانچہ آپ نے اپنے وطن میں اعلی معیاری تعلیمی ادارہ کی بنیاد کیلئےکوششیں شروع کیں.دوستوں کے تعاؤن سےجگہ کا انتخاب کیا،چند سالوں میں ایک پر شکوہ عمارت تیار ہوگئی۔اسی عرصہ میں منظوری بھی مل گئی.اور اب باقائدہ آغاز کیلئےاسٹاف بھرتی کا مرحلہ جاری تھا.ساتھیوں نے آپکواتفاق رائے سےچئرمن منتخب کرلیا.حالانکہ ریٹائرمنٹ کوچند سال باقی تھے،مگر ذمہ داریوں کو بہترڈھنگ سے نبھانے کیلئے انہوں نےرضاکارانہ سبکدوشی لیکراپنے وطن میں مستقل سکونت اختیار کرلی...اور آج جب انٹرویو میں شاہد چودھری کا نام سامنے آیا تو پرانے زخم پھر ہرے ہو گئے۔ دوسرے روز اتفاق سے انہیں کیمپس کے متعلق کچھ ضروری کاغذی کارروائی کے سلسلے میں بیرون شہر جانا پڑا ۔دوروز بعدواپس آفس پہنچے۔تمام مضامین میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے والے امیدواروں کی لسٹ دیکھی،جسمیں شاہد چودھری کے بیٹے زاہد کا نام سرِ فہرست تھا۔ انہوں نے کلرک کو حکم دیا۔ "یہ زاہد چودھری کو چھوڑ کر بقیہ سبھوں کو چار دن بعد آفس میں بلا لینا۔" اور کچھ ضروری ہدایات دےکرگھر چلے گئے۔ وہ زبردست ذہنی الجھن کا شکار تھے۔بے چینی انکے چہرے سے عیاں تھی۔وہ سرجھکائےگیلری میں چہل قدمی کرنے لگے.....وہ شاہد چودھری جس کی وجہ سے اپنا وطن ماں باپ،دوست واقارب سب کو چھوڑنا پڑا..آج اس کا بیٹا.....کیا کریں بیس سال بعد ہی سہی آج موقع ہاتھ آہی گیا اپنے ساتھ ہوئی ناانصافی کا بدلہ لیکرحساب بیباق کر دیں. بیگم نے جب شیخ صاحب کو پریشانی کے عالم میں چہل قدمی کرتے دیکھا تو پھر کریدنے لگیں۔ "کیا بات ہے؟ کچھ دنوں سے الجھے اجھے پریشان نظر آرہے ہو؟آخر کیا بات ہے؟ مجھے بھی توبتاؤ۔" اور پھر انھیں بیگم کے اصرار کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑا۔ "دراصل ہمارے یہاں سینٹرل کیمپس کے سابق چئرمن شاہد چودھری کابیٹا بھی آیا تھا۔" "تو کیا ہوااس کے آنے سے؟" "ہونا کیا تھا۔۔۔۔بچہ قابل ہے۔۔۔۔ دوسروں کے مقابلے میں اول نمبر پر وہی ہے۔" "تو پھر بلایا آپ نے اسے؟" " نہیں وہی فیصلہ نہیں کرپا رہاہوں۔" " جب وہ قابل ہے توبلالیں اسے۔۔۔اس میں حرج کیا ہے؟" " حرج!" شیخ صاحب نے طنز سےکہا۔ "حرج تو انہیں بھی نہیں ہونا چاہئے تھاجب میں ان کے سینٹرل کیمپس میں گیا تھا۔۔۔مگر کیا ہوا؟۔۔۔۔مانا کہ ہمارے اور انکے خاندان کے درمیان کچھ رنجش تھی،میں والد صاحب کے ہمراہ خودان کے گھر گیاتھا۔۔۔والد صاحب نے خودمعافی مانگی تھی ان سے....لیکن...انکے دل میں کپٹ تھا۔۔۔میں دھتکار دیا گیا.." "ٹھیک ہے۔۔۔مگرخدا نے ہمیں نوازاآپ کو بہترملازمت ملی۔" " کیا تم بھول سکتی ہو ان بیس سالوں کوہم نے کتنی مصیبت ومشکلات میں گزارے؟شادیاں تو عام طور پر ہمارے سامنے ہوتی تھیں مگرکسی عزیز رشتہ دار کے جنازے کو کاندھا تک نہ دے سکامیں۔۔۔اس عرصے میں تم نے اپنی ماں اور میں نے اپنے ماں باپ دونوں کو کھودیا.ہم انکی خدمت نہ کرسکے۔۔۔کون ہے اسکا ذمہ دار؟ وہی ہے نا؟اور آج اپنے بیٹے کو یہاں بھیجا ہے۔۔۔ کیسے بھولوں میں؟ " ٹھیک ہے۔۔۔ہم نے بہت مشکلات کا سامنا کیا۔۔۔اپنوں سے دور رہے لیکن اسکا صلہ ہمیں ملا کہ نہیں؟چودھری صاحب ذلیل ہوکر چئرمن شپ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۔۔آپ کوتمام اراکین نے اتفاق رائے سے چئرمن بنایا۔۔۔۔ہوسکتا ہے آپ یہاں رہتےتو محض ایک ٹیچر ہی ہو کر رہ جاتے۔۔۔مگر آج پوری ریاست میں ماہر تعلیم کےنام سے جانے جاتے ہیں آپ۔۔۔اور آپ اپنے لیکچرس میں کیا کہتے ہیں؟اقربا پروری مکاری جھوٹ سے دور ایمانداری اور محنت کا پیغام دیتے ہیں نا؟۔۔۔ آپ نے اپنے ادارے کا قیام ہی ان تمام برائیوں کے خلاف کیا ہے۔۔۔ اپنی انا کی تسکین کےلئےکیوں اپنے ہی اصولوں کے خلاف جارہے ہیں اور ایک قابل بچے کے ساتھ نا انصافی کرنا چاہ رہے ہیں آپ؟ " شیخ صاحب نے آنکھیں بند کرکے لمبی سانس لی،آنکھیں کھولیں اورمسلسل دیوار کو دیکھتے رہے۔یکایک فون کی گھنٹی بجی۔انہوں نے ریسیور اٹھاکر کان سے لگایا۔دوسری طرف سے آوز آئی۔ " شیخ صاحب !میں شاہد چودھری بول رہا ہوں۔۔۔۔میرا بیٹا زاہد چودھری آپ کے یہاں انٹرویو دو کرآیا ہے۔۔۔مجھ میں آپکا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔۔۔اسلئے فون کیاہے۔۔۔۔میں بہت شرمندہ ہوں شیخ صاحب!۔۔۔آپ سن رہے ہیں نا سر؟" دھیرے دھیرے اٹک اٹک کرچودھری صاحب بول رہے تھے... "شیخ صاحب! پلیز میری غلطی کی سزا میرے بیٹے کو....." شیخ صاحب نے شاہد چودھری کی بات درمیان سے ہی کاٹ دی اور کہا۔ "نہیں چودھری صاحب ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔ آپکا بیٹا قابل ہے اور ہماری انتظامیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اسکا ہی تقرر کیا جائے۔۔۔،ویسے کچھ دیر میں آپ کو اطلاع مل ہی جاتی۔۔۔خیر اچھا ہوا۔۔۔۔آپ نے ہی رابطہ کر لیا.آج آپ کو اپائنٹمنٹ لیٹر مل جائگا۔۔۔" چودھری صاحب بھرائی آواز میں کہا۔ "بہت بہت شکریہ شیخ صاحب! میں معافی۔۔۔۔۔" لیکن شیخ صاحب نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ دوسری طرف سے چودھری شاہد کی سسکیاں نہ سن سکے لیکن ان کی آنکھوں سےدو موتی ڈھلک آئے۔ (نعیم سلیم ‛ مالیگاؤں۔ انڈیا)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں