ہم کہ جب چھوٹے تھے نادان ہوا کرتے تھے
کتنے ہی چہروں کی مسکان ہوا کرتے تھے
تتلیاں، گھر سے بہت دور بھگا لاتی تھیں
چاند کو چھونے کے ارمان ہوا کرتے تھے
گھر، گلی، راہ، بڑے بوڑھے، کھلونے، اسکول
مرحلے جتنے تھے آسان ہوا کرتے تھے
کیا زمانہ رہا نادانی و دانائی کا
عشق بس سنتے تھے، انجان ہوا کرتے تھے
آنسوؤں سے بھی شکایت میں عجب تھی تاثیر
مسکراہٹ سے بھی احسان ہوا کرتے تھے
اب تو دیواروں کی آنکھیں بھی نکل آئی ہیں
اک زمانہ تھا جب کان ہوا کرتے تھے
وقت بدلا تو بدلتے ہوئے دیکھے رشتے
اب جو دشمن ہیں کبھی جان ہوا کرتے تھے
اے مسلمان کہاں ہے ترا کردارِ عظیم
جس سے کفار مسلمان ہوا کرتے تھے
آج ہم شیعہ ہیں، سنی ہیں وہابی ہیں ادیب
پہلے بس صاحب ایمان ہوا کرتے تھے!
_شاعر۔۔۔۔ادیب علیمی_
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں