12 نومبر 2017

Wahshi Akbrabadi Malegaonvi وحشی اکبرآبادی مالیگاؤنوی

*⚪ تعارف:: شعرائے مالیگاؤں ⚪*
*پیشکش نمبر :::::: 11 :::::::*
..................................................................
*"اپنــــــــــی مٹّـــــــــی ســــــــونا ھـــــــے"*
..................................................................
*وحشؔی اکبر آبادی مقیم مالیـگاؤں*
نام عبدالمجید خان تخلص وحشؔی ۔ وطن اکبر آباد سنِ ولادت 1904ء آباء و اجداد افغانستان سے نادر شاہ کے ہمراہ ہندوستان آئے تھے۔

پَر دادا 1857ء میں غدر کے زمانے میں کانپور کے واقعات کے سلسلے میں گورنمنٹ کے ہاتھوں پھانسی پر چڑھائے گئے۔ نانا اور دادا بھاگ کر آگرہ میں سکونت پذیر ہوئے۔ والد ریاستِ بھوپال میں انجینئر تھے۔ اب پینشن پاکر وہیں مقیم ہیں۔ تعلیم ایف اے تک ہے۔ اسکے بعد طبیہ کالج مسلم یونیورسٹی علیگڑھ سے طبّی اور ڈاکٹری کی سند حاصل کی۔ شاعری کا شوق عنفوان شباب سے پیدا ہوا۔ مگر طبیعت ظرافت پسند زیادہ تھی اسلیئے اوّل اوّل مزاحیہ شعر اکبرؔ الہ آبادی کے رنگ میں کہنا شروع کیا وہ شعر نمونتًا درج ہے؎
*ہر اک کالا اگر انگلینڈ سے گوری لے آئیگا*
*تو نبھے گی بھلا ہندوستاں کی کالیاں کب تک*
*سنا ہے شیو کرنے لیڈیاں پیرس سے آئی ہیں*
*ذرا دیکھیں بچائینگے یہ واعظ داڑھیاں کب تک*
1928ء میں شادی ہوئی۔ دس ماہ بعد ہی رفیقۂ حیات نے داغِ مفارقت دیدیا۔ اس صدمۂ جانکاہ نے دو سال تک دنیا و مافیہا سے بے خبر کرکے ویرانوں اور جنگلوں میں متعدد درویشوں کے ساتھ خاک چھنوائی۔ لیکن 1930ء میں وحشت پسند طبیعت نے یہ کہہ کر واپسی لی؎
*میں اپنے ہوش میں آتا ہوں اب خبر لیجے*
*جگائے دیتی ہے آواز زندگی مجھ کو*
             وحشؔی اکبر آبادی
              
* غزل*
سزا نہ پائی تو کس کام کی خطا میری
قضا نہ آئی تو کس کام کی سزا میری
نہ کام آئی دعا کچھ نہ التجا میری
نہ ہوسکی وہ نظر دردِ آشنا میری
کچھ ایسی بھائی چمن والوں کو ادائے جنوں
ہر ایک گُل نے کہا چاک ہو قبا میری
ابھی سے آپ نے کیسے بدل لئے تیور
ابھی تو لب پہ بھی آئی نہ التجا میری
تمہیں سے مانگ رہا ہوں تمہیں ارے توبہ
نئی خطا ہے نئی ہو کوئی سزا میری
شبِ فراق کی ویرانیاں مکمّل ہوں
قضا بھی آج ہی آجائے ائے خدا میری
خلافِ دردِ محبّت کبھی نہ ہاتھ اُٹھے
وفا پرست ہمیشہ رہی دعا میری
وہ اُن کا حشر میں آنا بصد پشیمانی
مرا تڑپ کے یہ کہنا کہ ہے خطا میری
لئے ہیں دشت میں کانٹوں نے یوں قدم وحشؔی
کہ تار تار ہوئی جاتی ہے قبا میری
_________*★ :: پیشکش:: ★*_________
*بزمِ تنویرِ ادب وہاٹس ایپ گروپ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں