12 نومبر 2017

Nazar Malegaonvi نظر مایگاؤنوی

*⚪ تعارف:: شعرائے مالیگاؤں ⚪*
*پیشکش نمبر :::::: 15 :::::::*
..................................................................
*"اپنــــــــــی مٹّـــــــــی ســــــــونا ھـــــــے"*
..................................................................
*نظؔر مالیگانوی*
نام محمّد بشیر تخلّص نظؔر والد کا نام حافظ شمش الدّین تھا۔ نسبًا انصاری ہوں۔ 1900ء میں
بمقام ٹانڈہ ضلع فیض آباد میں پیدا ہوا۔ والدِ مرحوم جس وقت وہاں سے سلسلۂ تجارت مالیگاؤں آئے اسوقت میری عمر صرف چھ ماہ تھی۔ اردو کی تعلیم مالیگاؤں میں مکان ہی پر مولوی عبدالمجید صاحب وحیؔد سے حاصل کی اور معمولی سی عربی بھی انہیں سے سیکھی۔ اردو فارسی کی تعلیم منشی عبادُ اللہ صاحب صفدؔر مالیگانوی سے حاصل کی چونکہ اسوقت مالیگاؤں کی سماجی اور معاشی زندگی پر مراٹھی زبان کا زیادہ اثر تھا۔ اسلئے لازمًا پرائمری اسکول میں داخل ہوکر یہ زبان سیکھنی پڑی۔ 1920ء میں جب سنِ شعور کو پہنچا تو مالیگاؤں میں ادبی مجلسوں کا خاصہ چرچا تھا۔ جس میں اکثر و بیشتر میں بھی شرکت کیا کرتا تھا۔ اس چیز نے میری زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ اور یہیں سے میرے ذوق کی ابتداء ہوئی۔  اس سلسلے میں میری حوصلہ افزائی کرنے میں جو شخصیت پیش پیش تھی وہ منشی نجیب اللہ صاحب ہنؔر مالیگانوی ہیں انہیں کے مشورے سے میں نے حضرت مولانا تجمّل صاحب جلال پوری کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا۔ لیکن چونکہ مولانا کا قیام بمبئی میں تھا۔ اسلئے صلاح کا سلسلہ زیادہ عرصہ تک جاری نہ رہ سکا۔ اور اسکے بعد میں اپنی غزلوں اور نظموں پر خود نظر ثانی کر لیا کرتا تھا۔ ابھی چند ہی سال گزرے ہونگے کہ والدِ مرحوم نے کاروبار سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ اور تمام بوجھ میرے کاندھوں پر آپڑا۔ ظاہر ہے ایسی حالت کے یکا یک رونما ہونے سے جسکے لئے انسان پہلے ہی سے تیار نہ ہو اسکو دوسری چیزوں سے بے نیاز کردیتا ہے اور پھر وہ اسی کو ہموار کرنیکی تگ و دَو میں لگ جاتا ہے۔ اسی باعث اور اسکے علاوہ دوسرے حادثات کی وجہ سے میں نے مجبورًا شعر و سخن سے ہی کنارہ کشی اختیار کرلی۔
                         نظؔر مالیگانوی
              
* غزل*
سحر سے پہلے پہلے یوں کوئی بالائے بام آیا
کہ شوقِ دید تک بھی خود فراموشی کے کام آیا
اجَل آئی ہے پیغامِ حیاتِ جاوداں لے کر
مصیبت ایک ہی تھی دوسری کا بھی پیام آیا
نشانِ جادہ بن کر رہ گیا تو غَم نہیں اسکا
میں اس حالت میں بھی ہر رہرو منزل کے کام آیا
وہاں کی زندگی بھی تنگ ہے اپنے لئے ائے دل
فنا کے ما تحت ہوکر جہاں کا ہر نظام آیا
یہ ہے منصور کی لغزش کا مرکز با خبر رہنا
جہاں انساں خدا بنتا ہے ائے دل وہ مقام آیا
نظؔر ہے فکر دنیا صرف ساقی کے نہ ہونے تک
کہاں پھر گردشِ ایّام جب گردش میں جام آیا
_________*★ :: پیشکش:: ★*_________
*بزمِ تنویرِ ادب وہاٹس ایپ گروپ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں