12 نومبر 2017

Auj Malegaonvi اوج مالیگاؤنوی

*⚪ تعارف:: شعرائے مالیگاؤں ⚪*
*پیشکش نمبر :::::: 12 :::::::*
..................................................................
*"اپنــــــــــی مٹّـــــــــی ســــــــونا ھـــــــے"*
..................................................................
*اوؔج مالیگانوی*
*منظور ہے گزارشِ احوالِ واقعی*
*اپنا بیانِ حسنِ طبیعت نہیں مجھے*
محمّد نظیر نام تخلّص اوؔج ہے۔ مالیگاؤں میں پیدا ہوا اور یہیں پروان چڑھا غریبی میں پَلا اور ہمیشہ خوش و خرم رہا۔
والد کا صحیح نام علیم الدّین تھا۔ لیکن بزرگوں کے جذبۂ محبّت نے بابو کے نام سے مشہور کردیا۔ دفتروں میں یہی نام درج ہوکر رہ گیا۔ آبائی وطن مئو (اعظم گڑھ) ہے۔
       جدّ بزرگوار سرکاری فوج میں ملازم تھے اسی مناسبت سے آپ رشتہ داروں میں امیرالدّین گھوڑے سوار کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ 1857ء کی تاریخ جس کا دوسرا نام غدر ہے۔ اپنے ساتھ تباہ کاری کے ایسے سامان لائی کہ اونچے گھرانے والوں کو سَر چھُپانا مشکل ہوگیا۔ چنانچہ جدّ بزرگوار بھی ترکِ وطن پر مجبور ہوئے۔ آپ کے چھوٹے بھائی حاجی سراج الدّین نے بنارس کو اپنا وطن سمجھا۔ اور خود جدّ بزرگوار مع اہل و عیال ہند کی خاک چھانتے ہوئے مہاراشٹر میں مالیگاؤں کو پسند فرما لیا۔
 
    میری تاریخ پیدائش اسکولوں کے دفتر میں 2 جنوری 1896ء درج ہے۔ ابتدائی تعلیم سرکاری مدرسے میں پائی 1913ء میں ورنا کیولر فائنل کا امتحان دیکر چند سال ساہو کاری ملازمت کی۔ تعلیم کا شوق دل میں تھا ملازمت سے الگ ہوکر دھولیہ ٹریننگ کالج میں داخلہ حاصل کیا۔ دو سال کی جدّ و جہد کے بعد 1917ء میں سیکنڈ ایئر کی سند ہاتھ آئی۔ اس وقت سے مدرّسی پیشہ بن گیا۔
     حضرت عارجؔ مدظلہُ شاگرد نواب فصاحتِ جنگ حضرت جلیؔل کے عروج کا زمانہ تھا۔ بسلسلۂ ملازمت مجھے آپ کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہوگیا۔
             اوؔج مالیگانوی
              
* غزل*
ہے جو خاموش ہمارا دلِ ناکام ابھی
یہ جو چاہے تو بدل دے صحر و شام ابھی
شیوۂ آذری افسوس کہ ہے عام ابھی
آستینوں میں نظر آتے ہیں اصنام ابھی
پھر مجھے عشق نے رسوا سرِ بازار کیا
دور ہونے بھی نہ پایا تھا یہ الزام ابھی
دیکھنے کیلئے پیدا تو کرے آنکھ کوئی
جلوۂ حسن نمایاں ہے لبِ بام ابھی
فاقہ مستی میں بھی مستی کا وہی عالم ہے
مئے سے لبریز ہی رہتا ہے مرا جام ابھی
رازِ امروز سمجھنے کا مجھے شوق کہاں
ہے نگاہوں میں شبِ عیش کا انجام ابھی
کس طرح رِند پہ اسرار خودی کے کھُلتے
بزم میں آیا نہیں بادۂ گلفام ابھی
کوئی دیکھے تو ذرا شورشِ مستی دل کی
میرے ساغر میں ہے باقی مئے خیّام ابھی
اوؔج سے رِند بلا نوش کی تسکیں کیا ہو !!
تیرے پیمانے کی ساقی ہے یہ مئے خام ابھی
_________*★ :: پیشکش:: ★*_________
*بزمِ تنویرِ ادب وہاٹس ایپ گروپ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں