12 نومبر 2017

Aqueel Rahmani Malegaonvi عقیل رحمانی مالیگاؤنوی

*⚪ تعارف:: شعرائے مالیگاؤں ⚪*
*پیشکش نمبر :::::: 14 :::::::*
..................................................................
*"اپنــــــــــی مٹّـــــــــی ســــــــونا ھـــــــے"*
..................................................................
*عقیؔل رحمانی مالیگانوی*
میں 1322ھ میں مالیگاؤں کے محلہ موتی پورہ میں پیدا ہوا۔ بفضل خدا ابتک یہیں ایّامِ زندگی گزار رہا ہوں۔
نام دین محمّد ہے والد عبدالرّحمٰن دادا شیخ مولانا حسام الدّین مرحوم جو قصبۂ پھولپور ضلع اعظم گڑھ کے ایک جیّد عالمِ دین اور مولانا شاہ کرامت علی جونپوری مرحوم کے مرید تھے۔ والد صاحب بہ تلاشِ معاش 1898ء میں مالیگاؤں آئے۔ اور 1940ء میں انتقال کر گئے۔ میں نے 1930ء میں حافظ عبدالرّحمٰن سے ختمِ قرآن کیا۔ اور مسجدِ نگینہ میں سنایا بھی جب بدقسمتی سے یہ سلسلہ ختم ہوگیا تو مدرسہ بحرالعلوم اور چشمۂ بقاء میں حضرت مولانا عبدالحمید صاحب وحیؔد مدظلہُ سے میں نے بتدریج اردو فارسی اور عربی کا علم حاصل کیا۔ زمانۂ تعلیم ہی میں شاعری کا شوق ہوا۔ چندے مشقِ سخن کے بعد 1925ء میں بذریعۂ خط و کتابت حضرت تجمّؔل صاحب جلال پوری مرحوم کا شاگرد ہوگیا۔ پہلے غریبؔ تخلّص کیا لیکن استاد نے عقیؔل کردیا۔
      استادِ محترم کی نگرانی میں میری غزلوں اور نظموں کا مجموعہ بنام گلدستۂ عقیؔل شائع ہوا۔ استاد مرحوم کے بعد تکمیلِ فن کے لئے علّامہ سیمؔاب اکبر آبادی صاحب کا شاگرد ہوگیا۔ اب چند وجوہات کی بناء پر تقریبًا دو سال سے خط و کتابت کا سلسلہ بند ہے۔ میں 17 اکتوبر 1933ء میں حضرت علّامہ حافظ عبدالرّحمٰن شائقؔ حسانِ روم بھوپالی رحمت اللہ علیہ کا مرید ہوگیا۔ اسی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ عقیؔل رحمانی لکھتا ہوں۔
                عقیؔل رحمانی مالیگانوی
              
* غزل*
تونے یہ کیا کردیا تاثیرِ ایمانی مجھے
کوئی دیتا ہے نویدِ عیش روحانی مجھے
جب مقدر ہوچکی برگشتہ سامانی مجھے
چھوڑ کر جاتے کہاں پھر خانہ ویرانی مجھے
جب کبھی ہوتی ہے تنہائی میں مونس کی تلاش
میں پریشانی کو روتا ہوں پریشانی مجھے
کاوشِ فکرِ عمل اندیشۂ انجام کار
اک بَلائے جاں ہوئی یہ ہستیٔ فانی مجھے
کل تھا چاکِ جامۂ گل پر تبسّم ریز میں
آج رسوا کُن ہے میری چاک دامنی مجھے
سَیر کو گلشن میں جاتا ہوں مگر رُکتا ہے دل
ڈر ہے شرمندہ نہ کردے تنگ دامانی مجھے
کاتبِ تقدیر نے قسمت کیا تھا رنج و غم
عمر بھر بے سود تھی فکرِ تن آسانی مجھے
مصرعِ غالب ہے تفسیرِ خیالاتِ عقیؔل
پھر ہوا ہے تازہ سودائے غزل خوانی مجھے
_________*★ :: پیشکش:: ★*_________
*بزمِ تنویرِ ادب وہاٹس ایپ گروپ*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں